پیر، 29 اگست، 2022

اسقاط حمل کا حکم اور اس کی صورتیں سوال نمبر ٣٧٧

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ

بعد سلام مسنون عرض یہ کہ حمل کب تک گرا سکتے ہیں ایک شخص کو دو لڑکیاں ہے اور وہ دونوں سیزر سے ہںوے ہے اب تیسرے سے اس کی بیوی کو حمل ٹھرا ہے اور اسکی دوسری بچی آٹھ ماہ کی ہے اگر یہ حمل باقی رکھتے ہیں تو اس کی بیوی اور بچی دونوں کو نقصان ہے بیوی کو تو جان کا خطرہ ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ حمل گرانے کی گنجائش ہے

سائل محمد صادق رشیدی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بغیر کسی مجبوری کے حمل ضائع کرانا درست نہیں، چاہے وہ حمل کچھ ہی دنوں کا ہو اور اگر واقعی مجبوری ہو مثلاً عورت اتنی کمزور ہے کہ بار حمل کا تحمل نہیں کرسکتی یا پہلے سے موجود بچے کی صحت خراب ہونے کا شدید خطرہ ہے اور ماہر دین دار مسلمان طبیب یا ڈاکٹر کا یہی مشورہ ہے تو ایسی صورت سے چار مہینے سے پہلے پہلے حمل ساقط کرانے کی گنجائش ہے۔


البتہ فقہاء کی عبارات سے عورت کے پیٹ میں جو حمل ٹھہرتا ہے اس کی تین صورتیں معلوم ہوتی ہے۔


(١) حمل کی ابتداء ہو یعنی ابھی حمل کو ایک مہینے یا اس سے بھی کم مدت ہوئی ہے اور اسقاط کا مسئلہ ہے تو عذر کی صورت میں اس کی گنجائش ہے۔


(٢) حمل جم گیا ہے لیکن چار مہینے سے کم کا ہے یعنی ۱۲۰؍ دن کی مدت کے اندر اندر ہو تو اسقاط حمل بلا عذر شدیدہ کے جائز نہیں ہے، ہاں اگر حاذق اور ماہر فن ڈاکٹر اس کے اسقاط کا حکم کریں تو اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔


(٣) حمل مکمل ہوچکا ہو یعنی اس پر ۱۲۰؍ دن پورے ہوجائے تو اب اس کے گرانے کی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ جب حمل چار ماہ یعنی ١٢٠ دن کا ہوجاتا ہے تو بچے کے اعضاء بننا شروع ہوجاتے ہیں اور اللہ رب العزت اس میں روح ڈال دیتا ہے، لہذا وہ نفس محترم کے حکم میں ہوجاتا ہے اور زندہ آدمی کی طرح اس کی بقاء و حفاظت کرنا واجب اور ضروری ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے ایسے حمل کا اسقاط حرام ہے۔


صورت مسئولہ میں حمل باقی رکھنے سے دونوں کو نقصان ہے اور سوال میں تحریر کے مطابق بیوی کو جان کا بھی خطرہ ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ ڈاکٹروں نے اس کو کمزوری کی وجہ سے اسقاط کا حکم دیا ہے یا نہیں اگر دیا ہے تو اس کو گرانا جائز ہے اور اگر ڈاکٹروں نے اس کو گرانے کا حکم نہیں دیا ہے تو اس کو گرانا جائز نہیں ہے۔


شامی میں ہے۔

وقالوا : یباح إسقاط الولد قبل أربعۃ أشہر ولو بلا إذن الزوج۔۔۔۔ وہو محمولۃ علی حالۃ العذر۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح / مطلب في حکم سقاط الحمل  ٤/٣٣٥ زکریا)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کالشعر والظفر ونحوہما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز وخلقہ لا یستبین إلا بعد مائۃ و عشرین یوما۔ (ہندیہ، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات زکریا جدید ۵/٤١٢)


شامی میں ہے۔

ویکرہ أن تسقی لإسقاط حملہا، وجاز لعذر حیث لایتصور، ۔۔۔ وقدروا تلک المدۃ بمائۃ و عشرین یوما و جاز لأنہ لیس بآدمی وفیہ صیانۃ الآدمی۔۔۔ فی القنیۃ: أن یظہر لہ شعر أو إصبع أو رجل أو نحو ذٰلک۔ (در مختار مع الشامی، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، زکریا ۹/٤۱۵،)


الفتاویٰ الہندیۃ میں ہے۔

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کالشعر والظفر ونحوہما لا یجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز …، امرأۃ مرضعۃٌ ظہر بہا حبل وانقطع لبنہا وتخاف علی ولدہا الہلاک ولیس لأبي ہٰذا الولد سعۃ حتی یستأجر الظئر یباح لہا أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفۃ أو مضغۃ أو علقۃ لم یخلق لہ عضو وخلقہ لا یستبین إلا بعد مائۃ وعشرین یومًا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر ٥/٣٤٥ زکریا)


الموسوعة الفقهية الكوتية میں ہے:

وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل۔ (الموسوعة الفقهیة الکویتیة۳۰/ ۲۸۵)


 شامی میں ہے۔

قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم۔ (فتاوی شامی٤/٣٣٥)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا




اتوار، 28 اگست، 2022

کسی سے محبت کرکے شادی کرنے کی قسم کھائی پھر کسی اور سے شادی کرلی تو کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٧٦

 سوال

اسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

سوال یہ ہے کہ ایک مرد نے ایک عورت سے محبت کی مرد نے عورت کو شادی کرنے کا قسم دیا پھر اس عورت سے شادی نہیں کی دوسری سے شادی کرلے اس مرد پر شریعت نےکیا حکم دیا۔

سائل محمد ایوب 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعت مطہرہ نے  مرد و زن کا اختلاط اور  اور بغیر نکاح  کے ملنے جلنے اور آپس میں محرموں کی طرح بات چیت گپ شپ  اور اس جیسے دیگر بے حیائی کے کاموں کو سخت ناپسند کیا ہےاور نامحرموں سے پردہ ضروری قراردیا ہے چنانچہ خود قرآن کریم میں اللہ نے اپنے نبی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات اپنی بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے فرمادیجیے کہ اپنے چہروں پر پردے لٹکالیا کریں اسی طرح دوسری جگہ فرمایا جب اَزواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھا کریں۔


لڑکے نے اگر واقعی شادی کا وعدہ کیا تھا تو لڑکے کو عہد کی پاس داری کرتے ہوئے شادی کرنا چاہیے اور اگر قسم کھائی ہے تو اس کو پورا کرنا بھی ضروری ہے اگر قسم کو پورا نہیں کیا تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا البتہ اس نے جو دوسری جگہ نکاح کیا ہے اس نکاح میں کوئی قباحت نہیں آئے گی۔


قسم توڑدینے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکین کو دو وقت پیٹ بھرکر کھانا کھلائے یا دس فقیروں کو کپڑا پہنادے، ہرفقیر کواتنا کپڑا دے کہ جس سے بدن کا اکثر حصہ ڈھک جائے، اگر کھانا کھلانے یا کپڑا پہنانے پر قدرت نہ ہو تو لگاتار تین روزے رکھے گا، اگر کفارہ ادا نہیں کرے گا تو اس کا گناہ ہوگا۔


قرآن کریم میں ہے 

يَٰٓأَيُّھا النَّبِيُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ (سورۂ احزاب٦) وَإِذَا سَأَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَرَآءِ حِجَابٍ الأحزاب


قرآن کریم میں ہے 

لايُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سورۂ مائدة: ٨٩)


قرآن کریم میں ہے 

وَأَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔولًا (سورۂ اسرا ٣٤)


المعجم الکبیر میں ہے

قال لا أیمان لمن لاأمانۃ له، و لادین لمن لا عهدله، و الذي نفسي بیدہ، لایستقیم دین عبد حتی یستقیم لسانه، و لایستقیم لسانه حتی یستقیم قلبه، و لایدخل الجنة من لایأمن جارہ بوائقه۔ (المعجم الکبیر للطبراني، داراحیاء التراث العربي بیروت۱۰/۲۲۷)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

ہفتہ، 27 اگست، 2022

عورتوں کا سر کے بالوں میں امبوڈا یعنی جوڑا بنا کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٧۵

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسألہ ذیل کے بارے میں مسألہ یہ ہے کہ عورتوں کو سر کے بالوں میں امبوڈا بنا کر نماز پڑھنا کیسا ہے

سائل محمد شاھد پالن پوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عورتوں کا سر کے بالوں کا جوڑا اس طرح باندھنا کہ سارے بال جمع کرکے سر کے اوپر امبوڈا باندھیں، یہ شکل جوڑا باندھنے کی ہے جو مکروہ ہے حدیث مبارکہ میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے کہ ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ان کو جنت کی خوشبو نصیب ہوگی تاہم اگر کسی نے اس طرح جوڑا بنایا اور نماز کی حالت میں وہ بال ڈھکے ہوئے تھے تو  نماز  کا فرض ادا ہوجائے گا۔


احسن الفتاوی میں ہے 

احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایاہے کہ عورتوں کا سر کے بالوں کا جوڑا اس طرح باندھنا کہ سارے بال جمع کرکے سر کے اوپر جوڑا باندھیں یہ شکل جوڑا باندھنے کی ناجائز ہے، خواہ نماز کے باہر ہو یا نماز کے اندر اس شکل پر حدیث میں وعید آئی ہے۔ (احسن الفتاوی: ۸/۸٤) 


مشكاة المصابيح میں ہے

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صنفان من أهل النار لم أرهما: قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس و نساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤوسهم كأسنمة البخت المائلة لايدخلن الجنة و لايجدن ريحها وإن ريحها لتوجد من مسيرة كذا وكذا. رواه مسلم۔


صحیح مسلم میں ہے

عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صنفان من اهل النار، لم ارهما قوم معهم سياط كاذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رءوسهن كاسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا۔ (كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها،باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

ﻭﻳﻜﺮﻩ ﻋﻘﺺ ﺷﻌﺮﻩ ﻭﻫﻮ ﺟﻤﻊ اﻟﺸﻌﺮ ﻋﻠﻰ اﻟﺮﺃﺱ ﻭﺷﺪﻩ ﺑﺸﻲء ﺣﺘﻰ ﻻ ﻳﻨﺤﻞ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺒﻴﻴﻦ ﻭاﺧﺘﻠﻒ اﻟﻔﻘﻬﺎء ﻓﻴﻪ ﻋﻠﻰ ﺃﻗﻮاﻝ ﻓﻘﻴﻞ ﺃﻥ ﻳﺠﻤﻌﻪ ﻭﺳﻂ ﺭﺃﺳﻪ ﺛﻢ ﻳﺸﺪﻩ ﻭﻗﻴﻞ ﺃﻥ ﻳﻠﻒ ﺫﻭاﺋﺒﻪ ﺣﻮﻝ ﺭﺃﺳﻪ ﻛﻤﺎ ﻳﻔﻌﻠﻪ اﻟﻨﺴﺎء ﻭﻗﻴﻞ ﺃﻥ ﻳﺠﻤﻌﻪ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ اﻟﻘﻔﺎ ﻭﻳﻤﺴﻜﻪ ﺑﺨﻴﻂ ﺃﻭ ﺧﺮﻗﺔ ﻭﻛﻞ ﺫﻟﻚ ﻣﻜﺮﻭﻩ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ اﻟﺮاﺋﻖ ﻧﺎﻗﻼ ﻋﻦ ﻏﺎﻳﺔ اﻟﺒﻴﺎﻥ۔ (فتاوی عالمگیری اﻟﻔﺼﻞ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﻜﺮﻩ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﻣﺎ ﻻ ﻳﻜﺮﻩ، ١/١٠٦ ط: دارالفکر بیروت)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

جمعہ، 26 اگست، 2022

تین طلاقیں دینے کے بعد ایک ساتھ رہنا اور حمل ٹھہر جانے کی صورت میں اس کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٧٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 کیا فرما تے ہیں مفتیان کرام مسائل ذیل کے بارے میں ایک صاحب کی اپنے سالےسے ان بن ہوئی اسی دوران اس نے اپنے سالےسے یہ جملہ کہا کے تیری بہن کو تین طلاق میں اسکو نہیں رکھتا یہ کہنے کے بعد بھی اپنی بیوی سے تعلقات برابر رکھتا رہابیوی حمل سے تھی بچے کی پیدائش ہونے کےبعد اب دو بارہ حمل  تقریبا پندرہ دن کاہے اس حالت میں ان دونوں میاں بیوی کو اپنے گناہ کا احساس ہوا ہے ایک سوال یہ ہے کہ حمل باقی رکھیں یاصفائی کرادیں اور دوسرا سوال یہ ہے میاں بیوی کے باہمی تعلقات کا جائز طریقہ کیاہوگا اور یہ بیوی رہن سہن نان نفقہ کا خرچ کس سے لے گی مع تفصیل کے مدلل جواب مرحت فرماں کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں فقط والسلام

سائل محمد فرقان رشیدی شاملی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


تین طلاق دینے کے باوجود اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم رکھنا حرام ہے اور صریح زنا ہے اور جب اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے اب دونوں کا ساتھ رہنا ناجائز اور حرام ہے لہٰذا دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں اور اتنے عرصے ساتھ رہنے کی وجہ سے حرام کاری کے جو مرتکب ہوئے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب توبہ و استغفار کریں،

 

اور جب اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں تو اس شخص کے لیے حلالہ شرعیہ سے ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز ہوگا اور حلالہ شرعیہ یہ ہے کہ شرعی طریقے سے پہلے خاوند کی عدت گزرنے کے بعد عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ اس مطلقہ سے ہمبستری بھی کرے اس کے بعد جب چاہے طلاق دے اور شوہر ثانی کی طلاق کے بعد جب عدت پوری ہو جائے تو شوہر اول دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔


اگر زنا سے حمل ٹھہر گیا اور مدتِ حمل ابھی پندرہ دن ہوئی ہے، تو ایسی صورت میں حمل ساقط کروانا جائز بلکہ بطورِ پردہ پوشی بہتر ہے۔


مطلقہ عورت کا نفقہ صرف عدت کے مکمل ہونے تک ہی رہتا ہے لہذا مطلقہ کا نفقہ تو ایام عدت کے ختم کے بعد مرد پر واجب نہیں ہے البتہ اولاد کا نفقہ باپ پر واجب ہوتا ہے اگر اولاد ذکور ہے تو بلوغ تک اور اولاد اناث ہے تو نکاح تک نفقہ لازم ہے اور اگر اولاد کمانے کے قابل نہیں ہے تو بھی باپ پر حسب استطاعت نفقہ واجب ہوگا۔


الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ میں ہے 

ذهب الفقهاء إلى أن من طلق زوجته طلقة رجعية أو طلقتين رجعيتين جاز له إرجاعها في العدة۔۔۔أما إذا طلق زوجته ثلاثا، فإن الحكم الأصلي للطلقات الثلاث هو زوال ملك الاستمتاع وزوال حل المحلية أيضا، حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر، لقوله تعالى: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ ١٠/٢۵۵ ط: دار السلاسل)


بدائع الصنائع میں ہے 

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٣/١٨٧)


الموسوعة الفقهية الكوتية میں ہے:

وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل۔ (الموسوعة الفقهیة الکویتیة۳۰/ ۲۸۵)


ہدایہ میں ہے 

وان کان الطلاق ثلثا فی الحرۃ او ثنتین فی الامۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحاً ویدخل بھا ثم یطلقھا یموت عنھا والأصل فیہ قولہ تعالٰی فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ والمراد الطلقۃ الثالثہ۔ (ہدایہ ۲/۳۹۹)


فتاوی ہندیہ میں ہے:

و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

ولايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان۔ (كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٢، ط: دار الفكر)


المبسوط للسرخسی میں ہے

و الذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثًا؛ لأنّ النساء عاجزات عن الكسب؛ و استحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه، و إن كانوا ذكورًا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنًا، أو أعمى، أو مقعدًا، أو أشل اليدين لاينتفع بهما، أو مفلوجًا، أو معتوهًا فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، و هذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج و استحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر۔ (كتاب النكاح، باب نفقة ذوي الأرحام، ٥ / ٢٢٣، ط: دار المعرفة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

جمعرات، 25 اگست، 2022

لفظ اللہ کے تلفظ میں تعالی اور جل جلالہ کو نہ ملائے تو کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٧٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 کیا اللہ تبارک و تعالی کے نام کے ساتھ (تبارک وتعالی)  اس طرح کے الفاظ ذکر کرنا واجب ہیں یا صرف اللہ (لفظ تعالی وغیرہ کے بغیر)کہنا بھی جائز ہو گا؟

اور کیا کسی کو اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہوا سنیں تو ہمارے لیے یہ واجب ہے کہ ہم اس پر اللہ تعالی کی تعریف و تقدیس میں سبحانہ و تعالی وغیرہ کے الفاظ استعمال کریں اور اگر کوئی استعمال نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

سائل شمس الدین ناسک


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


لفظ اللہ کے تلفظ میں تعالی اور جل جلالہ کا ملانا واجب نہیں ہے اس کے بغیر بھی اس کا تلفظ جائز ہیں لیکن آداب کے خلاف ہے اسی طرح اللہ تعالی کا نام سن کر اس کی تعریف و تقدیس میں سبحانہ و تعالی وغیرہ کے الفاظ استعمال کرنا بھی واجب اور ضروری نہیں ہے۔

اس سلسلے میں فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: حدیث شریف میں تو اس کے متعلق کوئی صراحت نہیں گذری، لیکن اپنے اساتذہ کرام سے سنا ہے کہ ”اللہ“ کا لفظ سن کر اس کی عظمت کا اظہار کرنا بہتر ہے، یعنی جل جلالہ کہہ دے یا تعالیٰ کہہ دے۔ یا تباک وتعالی کہہ دے۔ حدیث شریف میں نماز شروع کرتے وقت تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھنے کا ذکر ہے، اس میں تبارک اسمک وتعالی جدک سے غالباً لیا گیا ہے یہ کہنا واجب نہیں صرف اولی اور بہتر اور ادب کے درجہ میں ہے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ۵٨٠٨١)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

خلع میں عدت کا نفقہ لازم ہوگا یا نہیں؟ سوال نمبر ٣٧٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

اگر بیوی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی جب کہ شوہر رکھنا چاہتا ہے پھر اس صورت میں بیوی شوہر سے بغیر کچھ مل دیئے خلع لے لے پھر اس کے بعد شوہر سے عدت کے خرچے کا مطالبہ کرے تو کیا اس کی گنجائش ہوگی یا نہیں؟

یعنی خلع کی صورت میں عدت کا خرچہ شوہر پر لازم ہوگا یا نہیں جبکہ بیوی اس کا مطالبہ بھی کر رہی ہے اور شوہر نہیں دینا چاہتا؟

سائل احسن مہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعت مطہرہ نے طلاق کا اختیار صرف اور صرف مرد کو دیا ہے لیکن اگر میاں بیوی میں نباہ  مشکل ہو اور شوہر بغیر عوض طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو عورت کے لئے یہ راستہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ آپسی رضامندی سے مال کی پیش کش کرکے اپنے آپ کو آزاد کرالے جب شوہر اس پیش کش کو قبول کرلیں تو عورت نکاح سے نکل جائے گی جس کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں۔


اور خلع شریعت میں طلاقِ بائن کے حکم میں ہے لہذا اس کو ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور عدت طلاق میں عدت گزر جانے تک عورت کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہوتاہے اس لئے مرد پر عدت کا خرچ بھی لازم ہوگا البتہ اگر عدت کے نفقہ کو ساقط کرنے کی صراحت کردی گئی ہو تو نفقہ ساقط ہوجائے گا۔


مسئولہ صورت میں عورت عدت کے نفقہ کا مطالبہ کریں اور خلع کے وقت سقوط کی شرط نہ کی ہو تو مرد پر عدت کا نفقہ لازم ہوگا اور خلع کے وقت سقوط کی صراحت کردی ہو تو نفقہ دینا لازم نہ ہوگا۔


فتاوی شامی میں ہے

إلا نفقة العدة وسكناها فلا يسقطان إلا إذا نص عليها فتسقط النفقة لا السكنى۔ (فتاوی شامی ۵/١٠٦)


فتاوی ہندیہ میں ہے

إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية۔


وشرطه شرط الطلاق وحكمه وقوع الطلاق البائن كذا في التبيين. و تصح نية الثلاث فيه. و لو تزوجها مرارًا و خلعها في كل عقد عندنا لايحل له نكاحها بعد الثلاث قبل الزوج الثاني، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان۔ (کتاب الطلاق،باب الخلع، ١/ ٤٨٨ ط؛دار الفکر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

منگل، 23 اگست، 2022

طلاق شدہ عورت کے گھر کھانا اور حرام مال کھانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٧١

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

سوال یہ ہیکہ ١ جس گھر میں طلاق شدہ عورت رہ رہی ہو اس گھر کا کھانا  کیسا ھے 

۲ کیا یہ کوئی حدیث ھے حرام مال کھانے سے چالیس دن تک کوئی عبادت قبول نہیں

اور اگر ایسا ہے تو پھر اگر کوئ دھوکہ سے کھلا دے تو اسکا کیا حکم ہے یعنی عبادت قبول ہوگی یا نہیں

سائل عبدالسلام خالد روڑکی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جس گھر میں مطلقہ عورت رہ رہی ہو اس گھر میں کھانا  کھانا جائز ہے کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے بشرطیکہ اس گھر کی آمدنی کا حصول حلال طریقے سے ہو۔


معجم الوسیط کی ایک روایت میں اس کا ذکر ملتا ہے البتہ اس سے عبادات کا ثواب مراد ہے ورنہ نفس فریضہ تو ادا ہوجائے گا۔


اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح سے وضاحت کی ہے۔

حدیث شریف میں یہ ہے ان العبد لیقذف اللقمة الحرام فی جوفہ ما یتقبل اللہ منہ عمل اربعین یوماً اھ (المعجم الاوسط، رقم: ۶۴۹۵) یعنی بندہ جب حرام لقمہ پیٹ میں ڈال لیتا ہے تو چالیس دن تک اُس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور یہ ظاہر ہے کہ عمل میں نماز بھی داخل ہے قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ قبول ہونے پر جو اجر و ثواب ملتاوہ نہیں ملے گا؛ البتہ ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا مثلاً نماز اِس حالت میں پڑھ لی تو اُس پر ادائیگی کا حکم ہوگا اُس کا لوٹانا واجب نہ ہوگا۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٦٠٠٩١١)


انجانے میں حرام مال کھالے اور کھانے والے کو معلوم نہیں تھا یا اس کی لاعلمی میں کسی نے حرام مال کھلا دیا تو توبہ و استغفار کرے لیکن چونکہ لاعلمی کی بنا پر اس نے کھایا ہے اس لئے وہ اس وعید میں داخل نہیں ہوگا۔


فتاوی شامی میں ہے 

الحرمة تتعدد مع العلم بہا ۔۔۔۔۔۔۔ وما نقل عن بعض الحنفیة من ان الحرام لاتتعدی ذمتین سألت عن الشہاب بن الشلبی فقال ہو محمول علی ما إذا لم یعلم بذالک الخ (فتاوی شامی ۷/۳۰۱ کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ط: زکریا دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

ہفتہ، 20 اگست، 2022

کسی کے قسم دینے سے قسم کا شرعی حکم کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٧٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

اگر کسی نے اپنی بیوی کو قسم دی کہ تو اپنی ماں یا بہن سے بات نہیں کرے گی اور پھر بیوی نے چھ مہینوں تک بات نہیں کی  پھر کسی وجہ سے بات کرلی تو کفارہ مرد پر ہوگا یا بیوی پر؟ اور کیا اس طرح قسم دینے سے قسم لازم ہوگی یا نہیں؟

بیوی نے زبانی طور پر کچھ نہیں کہا تھا تو کیا عملاً قبول کر لینا بھی قسم کے قائم مقام ہوگا؟

سائل: زبیر مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قسم کے منعقد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ الفاظ قسم کا تلفظ ہو یعنی زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔ لہذا محض کسی شخص کے قسم دینے سے شرعاً قسم نہیں ہوتی ہے، جب تک وہ اس کے کہنے پر خود قسم نہ کھائے، یا اس کی قسم پر ہاں نہ کہے، لہذا صورت مسئولہ میں قسم واقع نہیں ہوتی ہے، اور جب قسم ہی نہیں ہوئی تو قسم کے خلاف کرنے سے کوئی کفارہ واجب نہیں ہوگا۔


فتاوی شامی میں ہے 

ورکنہا اللفظ المستعمل فیہا کذا في الدرر (فتاوی شامی کتاب الایمان ۵/٤٧٣ ط مکتبہ زکریا دیوبند)


البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے

وركنها اللفظ المستعمل فيها و شرطها العقل و البلوغ۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ٤/٣٠٠)


فتاوی شامی میں ہے

رجل قال لآخر واللہ لتفعلن کذا وکذا ولم ینو استحلاف المخاطب ولا مباشرة الیمین علی نفسہ فلا شيء علی واحد منہما إذا لم یفعل المخاطب ذلک“ (ہندیة: ۲/۶۰ زکریا)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

منگل، 16 اگست، 2022

کیک پر عید غدیر خم لکھنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٦٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت ہمارے شہر کراچی میں اک بہت مشہور سویٹس کی شاپ (مٹھائی کی دکان)ہے جوکہ دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے ہیں انھوں نے ذالحجہ کے مہینہ میں کیک بنائے اپنی شاپ پر رکھے اس پر لکھا ہوا تھا عید غدیر مبارک جو کہ اک مخصوص طبقہ مناتا ہے اب اسطرح لکھنا عید غدیر مبارک اسکا کیا حکم ہے

سائل عبد الخالق کراچی



الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اصولی اعتبار سے اتنی بات سمجھ لیں کہ کوئی ایسی چیز جو غیروں کے تہوار یا فاسقوں کے فسق اور ان کے شعائر کے ساتھ خاص ہو اس میں کسی بھی اعتبار سے مدد کرنا گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے جس کی قرآن میں ممانعت آئی ہے،

 

غدیر خم ایک چشمہ کا نام تھا جس کے نام سے ایک علاقہ کا نام مشہور ہے جو مکہ مدینہ کے درمیان مقامِ جحفہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے ،حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں قیام فرمایا تھا اور یہیں ایک خطبہ دیا تھا ،خطبہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ ماہِ رمضان المبارک کی دس ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو تین سو آدمیوں کا سردار بناکر یمن کی جانب روانہ فرمایا تھا اس دوران کچھ صحابہ کو بتقاضہ بشریت حضرت علی سے کچھ دوستانہ شکایت ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجمع عام میں حضرت علی کے خلوص اور ان کے مرتبہ کا اظہار اس طرح سے فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" تاکہ لوگوں کے دل صاف ہوجائیں اور حضرت علی کی عظمت کا پتہ چل جائے۔


چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشادفرمایا تھا، اس سے شیعہ حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے  لیے خلافت بلا فصل ہونے پر استدلال کرنا شروع کردیا اور ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے "عید غدیر"  کہتاہے، اور اس دن عید مناتاہے، جس کی تائید کسی بھی طرح نہیں ہوتی۔ مزید تفصیل کے لیے (نجم الفتاوی ۱/۲۹۳،  اور کتاب النوازل ۲/٤۹٤ ) ملاحظہ فرمائیں۔


مسؤلہ صورت میں اس طرح کی عید منانے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے یہ عید نہ  تو منانا جائز ہے اورنہ اس میں شرکت کرنا درست ہے، اور نہ ہی اپنے کسی فعل سے اس کی تائید جائز ہے، کیوں کہ دین اسلام میں صرف دوعیدیں اور دوہی تہوار ہیں ، ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحی ان دوکے علاوہ دیگر تہواروں  اور عیدوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں لہذا ان کا اس طرح ذالحجہ کے مہینہ میں کیک پر عید غدیر مبارک لکھنا یہ درست نہیں ہے یہ اعانت علی المعصیت ہے جو حکم قرآنی کے خلاف ہے اس سے اجتناب اشد ضروری ہے۔


قرآن کریم میں ہے 

”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“


فتاوی شامی میں ہے

وما كان سببا لمحظور فهو محظور (فتاوی شامی ١١/٢٠۵)


بذل المجہود میں ہے

قلت: و كذلك كثير من مسلمي الهند يوافقون أهل الأوثان من الهنود في أعيادهم ويفعلون ما يفعلون، فإلى الله المشتكى، وإنا لله وإنا إليه راجعون." (باب صلوۃ العیدین، ۵/٢٠٢ ط:مركز النخب العلمية)


بذل المجہود میں ہے

وقال علیہ السلام : من تشبہ بقوم فہو منہم وفي البذل: قال القاري أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم أو الخیر عند اللہ تعالی۔ (بذل المجہود : ۱۲/ ۵۹ باب في لبس الشہرة)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 14 اگست، 2022

جے ہند کا نعرہ لگانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٦٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسألہ ذیل کے بارے میں

 مسألہ یہ ہے اسکول میں جی ہند بول سکتے ہیں؟ اور کیا یہ صحیح ہے کہ سب سے پہلے جے ہند کا نعرہ کسی مسلمان نے دیا تھا؟

سائل: محمد شاھد پالن پوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ایسے کلمات جن سے اللہ کی الوہیت کا انکار یا اس کے ذات و صفات کے ساتھ کسی کی شرکت کا معنی پایا جائے اس کے تلفظ کو شریعتِ مطہرہ نے ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح ایسی چیز جو غیروں کے تہوار یا فاسقوں کے فسق اور ان کے شعائر کے ساتھ خاص ہو اس میں مدد کرنا کسی بھی طرح سے ہو چاہے تلفظ سے ہو یا اس کو خود انجام دے کر ہو وہ گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے جس کی قرآن میں ممانعت آئی ہے وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَان۔


جے ہند اور جے بھارت یہ نہ ان کلمات میں سے ہیں جن سے اللہ کی الوہیت کا انکار یا اس کے ذات و صفات کے ساتھ کسی کی شرکت کا معنی پایا جائے اور نہ ان الفاظ میں سے ہیں جو غیروں کے شعائر میں سے ہیں اور نہ ہی ان کے مذہبی امور میں سے ہیں لہذا اس کے بولنے سے شرعی اعتبار سے کوئی حرج نہیں ہے، جے ہند کا معنی “بھارت کی فتح ہو یا بھارت قائم دائم رہے بھارت کا سر بلند ہو ترقی کرے برطانوی راج سے جدوجہد اور آزادی کے دوران کا ایک نعرہ ہے۔ اور جواہر لعل نہرو کی قیادت میں یہ نعرہ قومی نعرہ بن گیا مسؤلہ صورت میںجے ہند کہنے میں شرعی کوئی قباحت اور حرج نہیں ہے کہ سکتے ہیں البتہ اگر اس کو لازم اور دین کا جزو سمجھ کر کریں تو درست نہیں ہے۔


سب سے پہلے جے ہند کا نعرہ لگانے والا شخص

نریندر لوتھر نے اپنی کتاب (لیجنڈ ڈوٹس آف حیدرآباد) میں انتہائی دلچسپ مضامین پیش کئے ہیں جو دستاویزی شہادتوں ، انٹرویوز اور شخصی تجربات پر مشتمل ہیں اور ان مضامین میں سے ایک مضمون ’’جئے ہند‘‘ نعرہ کی اصلیت پر روشنی ڈالتا ہے ۔ نریندر لوتھر کے مطابق اس نظریہ کے خالق زین العابدین حسن ہیں جو حیدراباد کے ایک کلکٹر کے فرزند تھے اور جو انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے جرمنی گئے تھے (مستفاد: نئی دہلی  ٢۵/٢٠١٤ فروری سیاست ڈاٹ کام) 

اس سلسلہ میں عابد حسن سفرانی کا بھی نام پیش کیا جاتا ہے فریڈم فایٹرس ایسوسی ایشن کی پہل پر مجاہد آزادی چودھری اچاریہ نے تیلگو زبان میں سفرانی پر ایک کتاب لکھی ہے کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق متعدد معلومات کو جمع کیا گیا ہے- وہی وہ کتاب ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جے ہند کا نعرہ عابد حسن سفرانی کی اختراع ہے، جسے بعد میں سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج کے لئے منتخب کر لیا- نیتا جی نے ا س نعرے کو عوام کے جذبے کوآزادی کے لئے بیدارکرنے کا ذریعہ بنایا- یہ اتنا مقبول ہوا کہ پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی سمیت تمام معروف رہنماؤں نے بھی اسے اپنا لیا-

آج بھی اس نعرے کی تاثیر پہلے جیسی ہے۔ ملک کا محب وطن شہری اس نعرے کو لگا کرخود کے ہندوستانی ہونے پرفخر کرتا ہے نعرے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ  ملک میں زبان، مذھب، اور ثقافت کے نام پر نفرت پھیلانے والے تنگ نظرسیاست دانوں کو بھی اس پر عتراض نہیں ہےچودھری اچاریہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سفرانی صاحب نے یہ نعرہ فری انڈیا سنٹرس کے پہلے اجلاس میں تجویز کیا تھا- یہ اجلاس ۱۹٤١ میں ہندوستان کی حصول آزادی کے سلسلے میں برلن میں منعقد کیا گیا تھا- سبھاش چندر بوس کو یہ نعرہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے ہمیشہ کے لئے اسے اپنا لیا- وہ نیتا جی کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے آخری وقت تک ان کے ساتھ رہے-وہ نیتا جی کے جرمنی کے ان کے آخری سفرمیں بھی ساتھ تھے- اس سفر کی روداد نیتا جی کےبھتیجے سیسرکمار بوس کی کتاب ''آئی ان اے ان انڈیا ٹوڈے'' میں محفوظ ہے (مستفاد اردو آواز ٢٢ جون ٢٠٢١)واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

بدھ، 10 اگست، 2022

مقتدی کا امام کی آواز نہ پہنچنے کی وجہ سے رکن کا چھوٹ جانا سوال نمبر ٣٦٧

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ،جمعہ کی نماز میں دوسری رکعت میں  جب امام صاحب اللہ اکبر کہتے ہوئے قعدہ میں بیٹھے تو کچھ مقتدیوں تک آواز نہیں پہنچی اور وہ سجدے میں رہے،اور جب امام صاحب نے سلام پھیرا ، تو ان مقتدیوں کو معلوم ہوا کہ نماز ختم ہو گئی تو انہونے جلدی سے سجدے سے اٹھ کر سلام پھیرلیا،اب مسئلہ یہ ہے کہ ان مقتدیوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟ اسی طرح فرض واجب اور سنت کا کیا حکم ہے؟ مدلل جواب ارسال کریں تو مہربانی ہوگی۔ 

سائل محمد بن سعید پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اتمام نماز کے لئے چند سیکشن ہے۔ فرض، واجب، سنن، اور مقتدی ہونے کی صورت میں  ہر رکن میں امام کی مکمل اقتداء کرنا، اور اعذار کی وجہ سے تخفیف


(١) فرض

اگر کسی آدمی سے فرض چھوٹ جائے بھول سے ہو یا جان کر تو ازسرنو نماز کو دوہرانا ضروری ہے اس کی نماز ہی نہیں ہوگی چاہے وہ امام کے پیچھے ہویا تنہا نماز ادا کرتا ہو۔


(٢) واجب

اگر کسی آدمی سے واجب بھول سے چھوٹ جائے تو اگر وہ منفرد ہے تو آخر میں سجدۂ سہو کرنے سے نماز ہوجائے گی اور اگر مقتدی ہے تو سجدۂ سہو بھی لازم نہیں ہے نماز ہوجائے گی البتہ اگر جان بوجھ کر کسی واجب کو چھوڑ دے تو چاہے وہ منفرد ہو یا مقتدی قصدا ترک کرنا مکروہ تحریمی ہے، اگر کسی نے یہ واجب قصدا ترک کیا ہے، تو اس کو اس نماز کے وقت کے اندر نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے۔


(٣) سنت

نماز کے اندر سنتوں کے ترک سے نماز تو ہوجائے گی البتہ ثواب میں کمی ہوجائے گی۔


(٤) ہر رکن میں مقتدی کے لئے امام کی مکمل اقتداء 

مقتدی کے لیے نماز کے افعال میں امام کی اتباع کرنا واجب ہے، اس کی تین صورتیں ہیں: مقتدی افعال نماز کو یا تو امام کے ساتھ ساتھ ادا کرے، یا پھر امام سے تھوڑا پیچھے ہو، اس طور پر کہ امام اس رکن کو شروع کر لے، پھر مقتدی اس کے فورا بعد شروع کر کے امام کے ساتھ اس رکن میں شریک ہو جائے، یا امام اس رکن کو ادا کر چکے اور مقتدی اس کے متصل بعد اس رکن کو ادا کرے، ان تینوں صورتوں میں نماز ادا ہو جاتی ہے


(۵) اعذار کی وجہ سے تخفیف

البتہ کوئی شخص امام کے ساتھ شریک نماز ہے اور دوران نماز اونگھ یا غفلت یا آواز کے نہ پہنچنے کی وجہ سے امام کے ساتھ اس کا کوئی رکن چھوٹ گیا تو اس مقتدی کو چاہیے کہ تنبہ کے بعد فوراً وہ رکن ادا کرکے امام کو پالے، چھوٹے ہوئے رکن کو ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے۔


مسؤلہ صورت میں جن مقتدیوں نے امام صاحب اللہ کے سلام پھیرتے ہی سجدے سے اٹھ کر فوراً سلام پھیر دیا ان حضرات کی نماز نہیں ہوئی اس لئے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد کی مقدار بیٹھنا فرض ہے اور فرض کے چھوٹ جانے سے نماز نہیں ہوتی، چاہے وہ مقتدی ہو یا منفرد لہذا جن مقتدیوں نے فوراً سلام پھیر دیا ہے ان کو نماز دہرانا ضروری ہے۔


البحر الرائق میں ہے 

ولا إشکال فی وجوب الإعادة إذ ہو الحکم فی کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم ویکون جابرا للأول؛ لأن الفرض لا یتکرر.(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری ١/٣١٦ الناشر دار الکتاب الاسلامی)

ایضاً 

لأن کلا منہما واجب اتفاقا وبترک الواجب تثبت کراہة التحریم، وقد قالوا کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم یجب إعادتہا. (البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری ١/٣٣١ الناشر دار الکتاب الإسلامی)


حاشیة الطحطاوی میں ہے 

وکذا الحکم فی کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم والمختار أن المعادة لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی لأن الفرض لا یتکرر کما فی الدر وغیرہ ویندب إعادتہا لترک السنة (حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص ٢٤٨ الناشر: دار الکتب العلمیة بیروت - لبنان)


بدائع الصنائع میں ہے

فأما المقتدي إذا سها في صلاته فلا سهو عليه ؛ لأنه لا يمكنه السجود ؛ لأنه إن سجد قبل السلام كان مخالفا للإمام ، وإن أخره إلى ما بعد سلام الإمام يخرج من الصلاة بسلام الإمام ؛ لأنه سلام عمد ممن لا سهو عليه ، فكان سهوه فيما يرجع إلى السجود ملحقا بالعدم لتعذر السجود عليه ، فسقط السجود عنه أصلا۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ١/١٨۵)


فتاوی شامی میں ہے 

(واللاحق من فاتته) الركعات (كلها، أو بعضها) لكن (بعد اقتدائه) بعذر ،كغفلة ورحمة وسبق حدث وصلاة خوف ومقيم ائتم بمسافر، وكذا بلا عذر؛ بأن سبق إمامه في ركوع وسجود، فإنه يقضي ركعة،وحكمه كمؤتم، فلا يأتي بقراءة ولا سهو ،ولا يتغير فرضه بنية إقامة، ويبدأ بقضاء ما فاته عكس المسبوق ،ثم يتابع إمامه إن أمكنه إدراكه ،وإلا تابعه، ثم صلى ما نام فيه بلا قراءة، ثم ما سبق به بها إن كان مسبوقا أيضا، ولو عكس صح ،وأثم لترك الترتيب. (فتاوی شامی ٢/٣٤٤)

ایضاً

وحکمہ أنہ یبدأ بقضاء ما فاتہ بالعذر ثم یتابع الإمام إن لم یفرغ، وھذا واجب لا شرط حتی لو عکس یصح؛ فلو نام فی الثالثة واستیقظ فی الرابعة فإنہ یأتي بالثالثة بلا قراءة فإذا فرغ منھا صلی مع الإمام الرابعة وإن فرغ منھا الإمام صلاھا وحدہ بلا قراء ة أیضاً؛ فلو تابع الإمام ثم قضی الثالثة بعد سلام الإمام صح وأثم اھ، ومثلہ فی الشرنبلالیة وشرح الملتقی للباقاني (رد المحتار، کتاب الصلاة، آخر باب الإمامة، ٢/  ٣٤٦۔٣٤۵ ط: مکتبة زکریا دیوبند)


تبیین الحقائق میں ہے 

واللاحق بأن تحريمته على تحريمة الإمام حقيقة ؛لالتزامه متابعته وهو الذي أدرك أول الصلاة، وفاته من الآخر بسبب النوم أو الحدث، وكذا بأن أداءه فيما يقضيه على أداء الإمام تقديرا؛ لأنه التزم متابعته في أول الصلاة بالتحريمة، فتثبت الشركة بينهما ابتداء، فيبقى حكم تلك الشركة ما لم تنته الأفعال؛ لأن التحريمة لا تراد لذاتها بل للأفعال، فما بقي شيء من أفعال الصلاة تبقى الشركة على حالها، فصار اللاحق فيما يقضي ،كأنه خلف الإمام تقديرا، ولهذا لا يقرأ ،ولا يلزمه السجود بسهوه.( تبیین الحقائق ١/١٣٨)


مراقي الفلاح میں ہے

ویفسدہا مسابقۃ المقتدي برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ، کما لو رکع ورفع رأسہ قبل الإمام، ولم یعدہ معہ أو بعدہ وسلم۔ (مراقي الفلاح ۱۸۵ کراچی)

ایضاً 

ویفسدہا عدم إعادۃ رکنٍ أداہ نائماً؛ لأن شرط صحتہٖ أداؤہ مستیقظًا۔ (مراقي الفلاح ۱۸٦ کراچی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا