سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اگر کسی نے اپنی بیوی کو قسم دی کہ تو اپنی ماں یا بہن سے بات نہیں کرے گی اور پھر بیوی نے چھ مہینوں تک بات نہیں کی پھر کسی وجہ سے بات کرلی تو کفارہ مرد پر ہوگا یا بیوی پر؟ اور کیا اس طرح قسم دینے سے قسم لازم ہوگی یا نہیں؟
بیوی نے زبانی طور پر کچھ نہیں کہا تھا تو کیا عملاً قبول کر لینا بھی قسم کے قائم مقام ہوگا؟
سائل: زبیر مالیگاؤں
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قسم کے منعقد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ الفاظ قسم کا تلفظ ہو یعنی زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔ لہذا محض کسی شخص کے قسم دینے سے شرعاً قسم نہیں ہوتی ہے، جب تک وہ اس کے کہنے پر خود قسم نہ کھائے، یا اس کی قسم پر ہاں نہ کہے، لہذا صورت مسئولہ میں قسم واقع نہیں ہوتی ہے، اور جب قسم ہی نہیں ہوئی تو قسم کے خلاف کرنے سے کوئی کفارہ واجب نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے
ورکنہا اللفظ المستعمل فیہا کذا في الدرر (فتاوی شامی کتاب الایمان ۵/٤٧٣ ط مکتبہ زکریا دیوبند)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے
وركنها اللفظ المستعمل فيها و شرطها العقل و البلوغ۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ٤/٣٠٠)
فتاوی شامی میں ہے
رجل قال لآخر واللہ لتفعلن کذا وکذا ولم ینو استحلاف المخاطب ولا مباشرة الیمین علی نفسہ فلا شيء علی واحد منہما إذا لم یفعل المخاطب ذلک“ (ہندیة: ۲/۶۰ زکریا)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں