سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب ،جمعہ کی نماز میں دوسری رکعت میں جب امام صاحب اللہ اکبر کہتے ہوئے قعدہ میں بیٹھے تو کچھ مقتدیوں تک آواز نہیں پہنچی اور وہ سجدے میں رہے،اور جب امام صاحب نے سلام پھیرا ، تو ان مقتدیوں کو معلوم ہوا کہ نماز ختم ہو گئی تو انہونے جلدی سے سجدے سے اٹھ کر سلام پھیرلیا،اب مسئلہ یہ ہے کہ ان مقتدیوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟ اسی طرح فرض واجب اور سنت کا کیا حکم ہے؟ مدلل جواب ارسال کریں تو مہربانی ہوگی۔
سائل محمد بن سعید پالنپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اتمام نماز کے لئے چند سیکشن ہے۔ فرض، واجب، سنن، اور مقتدی ہونے کی صورت میں ہر رکن میں امام کی مکمل اقتداء کرنا، اور اعذار کی وجہ سے تخفیف
(١) فرض
اگر کسی آدمی سے فرض چھوٹ جائے بھول سے ہو یا جان کر تو ازسرنو نماز کو دوہرانا ضروری ہے اس کی نماز ہی نہیں ہوگی چاہے وہ امام کے پیچھے ہویا تنہا نماز ادا کرتا ہو۔
(٢) واجب
اگر کسی آدمی سے واجب بھول سے چھوٹ جائے تو اگر وہ منفرد ہے تو آخر میں سجدۂ سہو کرنے سے نماز ہوجائے گی اور اگر مقتدی ہے تو سجدۂ سہو بھی لازم نہیں ہے نماز ہوجائے گی البتہ اگر جان بوجھ کر کسی واجب کو چھوڑ دے تو چاہے وہ منفرد ہو یا مقتدی قصدا ترک کرنا مکروہ تحریمی ہے، اگر کسی نے یہ واجب قصدا ترک کیا ہے، تو اس کو اس نماز کے وقت کے اندر نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے۔
(٣) سنت
نماز کے اندر سنتوں کے ترک سے نماز تو ہوجائے گی البتہ ثواب میں کمی ہوجائے گی۔
(٤) ہر رکن میں مقتدی کے لئے امام کی مکمل اقتداء
مقتدی کے لیے نماز کے افعال میں امام کی اتباع کرنا واجب ہے، اس کی تین صورتیں ہیں: مقتدی افعال نماز کو یا تو امام کے ساتھ ساتھ ادا کرے، یا پھر امام سے تھوڑا پیچھے ہو، اس طور پر کہ امام اس رکن کو شروع کر لے، پھر مقتدی اس کے فورا بعد شروع کر کے امام کے ساتھ اس رکن میں شریک ہو جائے، یا امام اس رکن کو ادا کر چکے اور مقتدی اس کے متصل بعد اس رکن کو ادا کرے، ان تینوں صورتوں میں نماز ادا ہو جاتی ہے
(۵) اعذار کی وجہ سے تخفیف
البتہ کوئی شخص امام کے ساتھ شریک نماز ہے اور دوران نماز اونگھ یا غفلت یا آواز کے نہ پہنچنے کی وجہ سے امام کے ساتھ اس کا کوئی رکن چھوٹ گیا تو اس مقتدی کو چاہیے کہ تنبہ کے بعد فوراً وہ رکن ادا کرکے امام کو پالے، چھوٹے ہوئے رکن کو ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے۔
مسؤلہ صورت میں جن مقتدیوں نے امام صاحب اللہ کے سلام پھیرتے ہی سجدے سے اٹھ کر فوراً سلام پھیر دیا ان حضرات کی نماز نہیں ہوئی اس لئے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد کی مقدار بیٹھنا فرض ہے اور فرض کے چھوٹ جانے سے نماز نہیں ہوتی، چاہے وہ مقتدی ہو یا منفرد لہذا جن مقتدیوں نے فوراً سلام پھیر دیا ہے ان کو نماز دہرانا ضروری ہے۔
البحر الرائق میں ہے
ولا إشکال فی وجوب الإعادة إذ ہو الحکم فی کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم ویکون جابرا للأول؛ لأن الفرض لا یتکرر.(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری ١/٣١٦ الناشر دار الکتاب الاسلامی)
ایضاً
لأن کلا منہما واجب اتفاقا وبترک الواجب تثبت کراہة التحریم، وقد قالوا کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم یجب إعادتہا. (البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری ١/٣٣١ الناشر دار الکتاب الإسلامی)
حاشیة الطحطاوی میں ہے
وکذا الحکم فی کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم والمختار أن المعادة لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی لأن الفرض لا یتکرر کما فی الدر وغیرہ ویندب إعادتہا لترک السنة (حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص ٢٤٨ الناشر: دار الکتب العلمیة بیروت - لبنان)
بدائع الصنائع میں ہے
فأما المقتدي إذا سها في صلاته فلا سهو عليه ؛ لأنه لا يمكنه السجود ؛ لأنه إن سجد قبل السلام كان مخالفا للإمام ، وإن أخره إلى ما بعد سلام الإمام يخرج من الصلاة بسلام الإمام ؛ لأنه سلام عمد ممن لا سهو عليه ، فكان سهوه فيما يرجع إلى السجود ملحقا بالعدم لتعذر السجود عليه ، فسقط السجود عنه أصلا۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ١/١٨۵)
فتاوی شامی میں ہے
(واللاحق من فاتته) الركعات (كلها، أو بعضها) لكن (بعد اقتدائه) بعذر ،كغفلة ورحمة وسبق حدث وصلاة خوف ومقيم ائتم بمسافر، وكذا بلا عذر؛ بأن سبق إمامه في ركوع وسجود، فإنه يقضي ركعة،وحكمه كمؤتم، فلا يأتي بقراءة ولا سهو ،ولا يتغير فرضه بنية إقامة، ويبدأ بقضاء ما فاته عكس المسبوق ،ثم يتابع إمامه إن أمكنه إدراكه ،وإلا تابعه، ثم صلى ما نام فيه بلا قراءة، ثم ما سبق به بها إن كان مسبوقا أيضا، ولو عكس صح ،وأثم لترك الترتيب. (فتاوی شامی ٢/٣٤٤)
ایضاً
وحکمہ أنہ یبدأ بقضاء ما فاتہ بالعذر ثم یتابع الإمام إن لم یفرغ، وھذا واجب لا شرط حتی لو عکس یصح؛ فلو نام فی الثالثة واستیقظ فی الرابعة فإنہ یأتي بالثالثة بلا قراءة فإذا فرغ منھا صلی مع الإمام الرابعة وإن فرغ منھا الإمام صلاھا وحدہ بلا قراء ة أیضاً؛ فلو تابع الإمام ثم قضی الثالثة بعد سلام الإمام صح وأثم اھ، ومثلہ فی الشرنبلالیة وشرح الملتقی للباقاني (رد المحتار، کتاب الصلاة، آخر باب الإمامة، ٢/ ٣٤٦۔٣٤۵ ط: مکتبة زکریا دیوبند)
تبیین الحقائق میں ہے
واللاحق بأن تحريمته على تحريمة الإمام حقيقة ؛لالتزامه متابعته وهو الذي أدرك أول الصلاة، وفاته من الآخر بسبب النوم أو الحدث، وكذا بأن أداءه فيما يقضيه على أداء الإمام تقديرا؛ لأنه التزم متابعته في أول الصلاة بالتحريمة، فتثبت الشركة بينهما ابتداء، فيبقى حكم تلك الشركة ما لم تنته الأفعال؛ لأن التحريمة لا تراد لذاتها بل للأفعال، فما بقي شيء من أفعال الصلاة تبقى الشركة على حالها، فصار اللاحق فيما يقضي ،كأنه خلف الإمام تقديرا، ولهذا لا يقرأ ،ولا يلزمه السجود بسهوه.( تبیین الحقائق ١/١٣٨)
مراقي الفلاح میں ہے
ویفسدہا مسابقۃ المقتدي برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ، کما لو رکع ورفع رأسہ قبل الإمام، ولم یعدہ معہ أو بعدہ وسلم۔ (مراقي الفلاح ۱۸۵ کراچی)
ایضاً
ویفسدہا عدم إعادۃ رکنٍ أداہ نائماً؛ لأن شرط صحتہٖ أداؤہ مستیقظًا۔ (مراقي الفلاح ۱۸٦ کراچی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں