سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اگر بیوی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی جب کہ شوہر رکھنا چاہتا ہے پھر اس صورت میں بیوی شوہر سے بغیر کچھ مل دیئے خلع لے لے پھر اس کے بعد شوہر سے عدت کے خرچے کا مطالبہ کرے تو کیا اس کی گنجائش ہوگی یا نہیں؟
یعنی خلع کی صورت میں عدت کا خرچہ شوہر پر لازم ہوگا یا نہیں جبکہ بیوی اس کا مطالبہ بھی کر رہی ہے اور شوہر نہیں دینا چاہتا؟
سائل احسن مہاراشٹر
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شریعت مطہرہ نے طلاق کا اختیار صرف اور صرف مرد کو دیا ہے لیکن اگر میاں بیوی میں نباہ مشکل ہو اور شوہر بغیر عوض طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو عورت کے لئے یہ راستہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ آپسی رضامندی سے مال کی پیش کش کرکے اپنے آپ کو آزاد کرالے جب شوہر اس پیش کش کو قبول کرلیں تو عورت نکاح سے نکل جائے گی جس کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں۔
اور خلع شریعت میں طلاقِ بائن کے حکم میں ہے لہذا اس کو ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور عدت طلاق میں عدت گزر جانے تک عورت کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہوتاہے اس لئے مرد پر عدت کا خرچ بھی لازم ہوگا البتہ اگر عدت کے نفقہ کو ساقط کرنے کی صراحت کردی گئی ہو تو نفقہ ساقط ہوجائے گا۔
مسئولہ صورت میں عورت عدت کے نفقہ کا مطالبہ کریں اور خلع کے وقت سقوط کی شرط نہ کی ہو تو مرد پر عدت کا نفقہ لازم ہوگا اور خلع کے وقت سقوط کی صراحت کردی ہو تو نفقہ دینا لازم نہ ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے
إلا نفقة العدة وسكناها فلا يسقطان إلا إذا نص عليها فتسقط النفقة لا السكنى۔ (فتاوی شامی ۵/١٠٦)
فتاوی ہندیہ میں ہے
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية۔
وشرطه شرط الطلاق وحكمه وقوع الطلاق البائن كذا في التبيين. و تصح نية الثلاث فيه. و لو تزوجها مرارًا و خلعها في كل عقد عندنا لايحل له نكاحها بعد الثلاث قبل الزوج الثاني، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان۔ (کتاب الطلاق،باب الخلع، ١/ ٤٨٨ ط؛دار الفکر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں