پیر، 8 اگست، 2022

شرکت میں شرکاء میں سے کسی کی بے توجہی سے نقصان ہوجائے تو ضمان کا حکم سوال نمبر ٣٦۵

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب امید ہے آپ بخیر عافیت ہوگے!

ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے وہ یہ کہ زید اور عمرو مرغی کی تجارت کرتے ہیں (بطور مشارکت) زید نے عمرو سے زیادہ رقم دی ہے اور عمرو نے کم رقم دی ہے لیکن عمرو محنت کرتا مثلا مرغیوں کی دیکھا بھال اور انکو خریدنا بیچنا اس وجہ سے دونوں منافع آدھا آدھا لیتے ہیں۔

عمرو کبھی کبھی دیکھ بھال میں سستی کرتا ہے جسکی وجہ سے کافی نقصان ہوجاتا ہے اور نقصان ہونے پر عمرو زید کو اطلاع بھی نہیں کرتا ہے ایسا دو تین مرتبہ ہوچکا ہے

بارش کا موسم تھا اس اعتبار سے مرغی کے بچوں کی حفاظت کا انتظام کرنا عمرو کے لیے ضروری ہے لیکن عمرو نے حفاظتی اقدام مکمل نہیں کر سکا جس کی وجہ سے مرغی فارم میں بارش کا پانی گھس گیا جسکی وجہ سے دو سو مرغیاں بیمار ہوگئی زید عمرو سے جب بھی حال احوال لیتا تھا تو عمرو کہتا تھا کہ کچھ نہیں ہوا بس کچھ مرغیاں بیمار ہے کچھ مری ہے تعداد نہیں بتایا جب   زید نے منافع تقسیم کرنے کو کہا (چار مہینے کے بعد )تو اس وقت عمرو نے بتایا کہ دو سو مرغی مری ہے جسکی وجہ سے پچیس ہزار کا نقصان ہوگیا عمرو کا کام تھا کہ بیمار مرغیوں کو ذبح کردے لیکن عمرو نے ایسا نہیں کی

یہ نقصان مشارکت کا پہلا نقصان تھا عمرو نے زید سے کہا کہ نقصان پورہ میں اپنے ذمہ لے لیتا ہوں لیکن زید نے منع کر دیا (عمرو نے نقصان برداشت کرنے کی بات اس وجہ کی کہ زید کہی یہ‌شراکت داری ختم نہ کردے )زید نے شرعیت مطابق نقصان کو شرکین کے درمیان تقسیم کیا

دوسرا نقصان بٹیر کی تجارت میں اس طور پر ہوا کہ دوہزار بٹیر کا بچہ لایا گیا فارم میں سانپ اور گھورپڑ گھس کر تقریبا تمام بچوں کو کھاکر کچھ کو مار کر بھاگ گئے 

عمرو نے اس معاملے کی اطلاع اپنے پاٹنر کو نہیں دی پہر مزید دوہزار بٹیر پھر پندرہ سو پھر مزید دوہزار بٹیر( تقریبا آٹھ ہزار بٹیر کا نقصان ہو گیا عمرو کا کام تھا کہ پہلی مرتبہ اس معاملے کی اطلاع کرتا جسکا کچھ حل نکالا جاتا یا بٹیر ہی نہیں لاتے تو مزید چھ ہزار بٹیر کا نقصان نہیں ہوتا لیکن عمرو نے نہ کچھ ایسی نقصان کی اطلاع دی اور نا ہی کچھ مشورہ کیا بٹیر کی تجارت کا معاملہ تقریبا آٹھ مہینہ رہا زید جب بھی عمرو سے حال احوال لیتا تو عمرو کہتا سب ٹھیک ہے مست چل رہا ہے اب زید نے عمرو سے منافع کا حساب کتاب کرنے کو کہا تاکہ منافع تقسیم ہو اب جبکہ زید نے منافع اور اصل رقم کا مطالبہ کیا تو عمرو نے اچانک بتایا کہ چار مہینہ پہلے فلاں فلاں طور پر نقصان ہو گیا (جو نقصان کی شکل اوپر بیان کی گئ ہے )

اب زید نے عمرو سے نہ نفع کی بات کی نہ نقصان صرف اب اس کا مطالبہ ہے کہ میری جو اصل رقم ہے وہ واپس کردے نفع نقصان تو ہی سمجھ کیونکہ پہلی مرتبہ نقصان برداشت کر لیاتھا جبکہ دونوں مرتبہ عمرو نے بر وقت نقصان کی اطلاع نہیں دی پہلی مرتبہ نقصان برداشت کر لیاگیا اب دوسری مرتبہ نقصان کا ذمہ دار صرف اور صرف عمرو ہے

زید صرف اپنی اصل رقم کا مطالبہ کر کے مشارکت کو ختم کرنا چاہتا ہے اس پس منظر میں اصل رقم کا مطالبہ کرنا درست ہے نا ؟؟؟

سائل: محمد مدثر عبدالواحد اسلام پورہ مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شرکت میں نقصان ہونے کی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک کا نقصان اُس کے مال کے تناسب سے ہوگا، یعنی جتنے فیصد سرمایہ کاری ہے ، اتنے فیصد وہ نقصان میں حصہ دار ہوگا۔


جس کو صاحب بدائع نے اس طرح سے تعبیر کیا ہے والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا؛ لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال۔ (بدائع الصنائع : ٦/٦٢ط: دار الکتب العلمیة )


البتہ مشترکہ کاروبار کا مال ہر شریک کے پاس امانت ہوتا ہے اور امانت کسی غفلت یا کوتاہی کے بغیر ضائع ہو جائے، تو اس کا ضمان امین پر نہیں آتا ہے، اور غفلت کی وجہ سے ضائع ہوا ہے تو وہ ضامن ہوگا، لہذا صورت مسئولہ میں اگر وہ مال بغیر غفلت اور کوتاہی کے ہلاک ہوا ہے، تو دونوں شریک اپنے حصے کے تناسب سے  نقصان برداشت کریں گے البتہ سوال میں جو صورت درج ہے اس اعتبار سے چونکہ عمرو نے اس کی حفاظت میں غفلت کی ہے اس لئے اس نقصان کی بھرپائی کا وہ خود ذمہدار ہوگا اور آپ کے لئے شرکت ختم کرکے اپنی پوری رقم عمرو سے وصول کرنا جائز ہے۔



ہدایہ میں ہے

ويوكل من يتصرف فيه لأن التوكيل بالبيع والشراء من توابع التجارة والشركة انعقدت للتجارة، بخلاف الوكيل بالشراء حيث لا يملك أن يوكل غيره لأنه عقد خاص طلب منه تحصيل العين فلا يستتبع مثله.قال: "ويده في المال يد أمانة لأنه قبض المال بإذن المالك لا على وجه البدل والوثيقة فصار كالوديعة (الهداية ٢/٦١٢ دار ط مکتبہ رحیمیہ)


مجمع الضمانات میں ہے

ولكل واحد من المتفاوضين وشريكي العنان أن يبضع المال ويستأجر للعمل ويودعه ويدفعه مضاربة.وعن أبي حنيفة أنه ليس له ذلك؛ لأنه نوع شركة فلا يملكها والأول أصح وهو رواية الأصل ويوكل من يتصرف فيه ويده في المال يد أمانة، من الهداية والضمير في يده راجع إلى الوكيل نص عليه ابن كمال في الإيضاح وعلله بقوله؛ لأنه قبض المال بإذن المالك لا على وجه البدل والوثيقة فصار كالوديعة، انتهى (مجمع الضمانات ٢٩٨ دار الكتاب الإسلامي)


فتاوی ہندیہ میں ہے:

وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه ، كذا في الشمني .الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق۔ (کتاب الودیعۃ، الباب الأول في تفسير الإيداع و الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها ٤/٣٣٨ ط:  رشیدیہ) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

کوئی تبصرے نہیں: