سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سوال یہ ہیکہ ١ جس گھر میں طلاق شدہ عورت رہ رہی ہو اس گھر کا کھانا کیسا ھے
۲ کیا یہ کوئی حدیث ھے حرام مال کھانے سے چالیس دن تک کوئی عبادت قبول نہیں
اور اگر ایسا ہے تو پھر اگر کوئ دھوکہ سے کھلا دے تو اسکا کیا حکم ہے یعنی عبادت قبول ہوگی یا نہیں
سائل عبدالسلام خالد روڑکی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جس گھر میں مطلقہ عورت رہ رہی ہو اس گھر میں کھانا کھانا جائز ہے کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے بشرطیکہ اس گھر کی آمدنی کا حصول حلال طریقے سے ہو۔
معجم الوسیط کی ایک روایت میں اس کا ذکر ملتا ہے البتہ اس سے عبادات کا ثواب مراد ہے ورنہ نفس فریضہ تو ادا ہوجائے گا۔
اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح سے وضاحت کی ہے۔
حدیث شریف میں یہ ہے ان العبد لیقذف اللقمة الحرام فی جوفہ ما یتقبل اللہ منہ عمل اربعین یوماً اھ (المعجم الاوسط، رقم: ۶۴۹۵) یعنی بندہ جب حرام لقمہ پیٹ میں ڈال لیتا ہے تو چالیس دن تک اُس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور یہ ظاہر ہے کہ عمل میں نماز بھی داخل ہے قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ قبول ہونے پر جو اجر و ثواب ملتاوہ نہیں ملے گا؛ البتہ ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا مثلاً نماز اِس حالت میں پڑھ لی تو اُس پر ادائیگی کا حکم ہوگا اُس کا لوٹانا واجب نہ ہوگا۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٦٠٠٩١١)
انجانے میں حرام مال کھالے اور کھانے والے کو معلوم نہیں تھا یا اس کی لاعلمی میں کسی نے حرام مال کھلا دیا تو توبہ و استغفار کرے لیکن چونکہ لاعلمی کی بنا پر اس نے کھایا ہے اس لئے وہ اس وعید میں داخل نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے
الحرمة تتعدد مع العلم بہا ۔۔۔۔۔۔۔ وما نقل عن بعض الحنفیة من ان الحرام لاتتعدی ذمتین سألت عن الشہاب بن الشلبی فقال ہو محمول علی ما إذا لم یعلم بذالک الخ (فتاوی شامی ۷/۳۰۱ کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ط: زکریا دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں