اتوار، 14 اگست، 2022

جے ہند کا نعرہ لگانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٦٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسألہ ذیل کے بارے میں

 مسألہ یہ ہے اسکول میں جی ہند بول سکتے ہیں؟ اور کیا یہ صحیح ہے کہ سب سے پہلے جے ہند کا نعرہ کسی مسلمان نے دیا تھا؟

سائل: محمد شاھد پالن پوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ایسے کلمات جن سے اللہ کی الوہیت کا انکار یا اس کے ذات و صفات کے ساتھ کسی کی شرکت کا معنی پایا جائے اس کے تلفظ کو شریعتِ مطہرہ نے ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح ایسی چیز جو غیروں کے تہوار یا فاسقوں کے فسق اور ان کے شعائر کے ساتھ خاص ہو اس میں مدد کرنا کسی بھی طرح سے ہو چاہے تلفظ سے ہو یا اس کو خود انجام دے کر ہو وہ گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے جس کی قرآن میں ممانعت آئی ہے وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَان۔


جے ہند اور جے بھارت یہ نہ ان کلمات میں سے ہیں جن سے اللہ کی الوہیت کا انکار یا اس کے ذات و صفات کے ساتھ کسی کی شرکت کا معنی پایا جائے اور نہ ان الفاظ میں سے ہیں جو غیروں کے شعائر میں سے ہیں اور نہ ہی ان کے مذہبی امور میں سے ہیں لہذا اس کے بولنے سے شرعی اعتبار سے کوئی حرج نہیں ہے، جے ہند کا معنی “بھارت کی فتح ہو یا بھارت قائم دائم رہے بھارت کا سر بلند ہو ترقی کرے برطانوی راج سے جدوجہد اور آزادی کے دوران کا ایک نعرہ ہے۔ اور جواہر لعل نہرو کی قیادت میں یہ نعرہ قومی نعرہ بن گیا مسؤلہ صورت میںجے ہند کہنے میں شرعی کوئی قباحت اور حرج نہیں ہے کہ سکتے ہیں البتہ اگر اس کو لازم اور دین کا جزو سمجھ کر کریں تو درست نہیں ہے۔


سب سے پہلے جے ہند کا نعرہ لگانے والا شخص

نریندر لوتھر نے اپنی کتاب (لیجنڈ ڈوٹس آف حیدرآباد) میں انتہائی دلچسپ مضامین پیش کئے ہیں جو دستاویزی شہادتوں ، انٹرویوز اور شخصی تجربات پر مشتمل ہیں اور ان مضامین میں سے ایک مضمون ’’جئے ہند‘‘ نعرہ کی اصلیت پر روشنی ڈالتا ہے ۔ نریندر لوتھر کے مطابق اس نظریہ کے خالق زین العابدین حسن ہیں جو حیدراباد کے ایک کلکٹر کے فرزند تھے اور جو انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے جرمنی گئے تھے (مستفاد: نئی دہلی  ٢۵/٢٠١٤ فروری سیاست ڈاٹ کام) 

اس سلسلہ میں عابد حسن سفرانی کا بھی نام پیش کیا جاتا ہے فریڈم فایٹرس ایسوسی ایشن کی پہل پر مجاہد آزادی چودھری اچاریہ نے تیلگو زبان میں سفرانی پر ایک کتاب لکھی ہے کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق متعدد معلومات کو جمع کیا گیا ہے- وہی وہ کتاب ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جے ہند کا نعرہ عابد حسن سفرانی کی اختراع ہے، جسے بعد میں سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج کے لئے منتخب کر لیا- نیتا جی نے ا س نعرے کو عوام کے جذبے کوآزادی کے لئے بیدارکرنے کا ذریعہ بنایا- یہ اتنا مقبول ہوا کہ پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی سمیت تمام معروف رہنماؤں نے بھی اسے اپنا لیا-

آج بھی اس نعرے کی تاثیر پہلے جیسی ہے۔ ملک کا محب وطن شہری اس نعرے کو لگا کرخود کے ہندوستانی ہونے پرفخر کرتا ہے نعرے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ  ملک میں زبان، مذھب، اور ثقافت کے نام پر نفرت پھیلانے والے تنگ نظرسیاست دانوں کو بھی اس پر عتراض نہیں ہےچودھری اچاریہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سفرانی صاحب نے یہ نعرہ فری انڈیا سنٹرس کے پہلے اجلاس میں تجویز کیا تھا- یہ اجلاس ۱۹٤١ میں ہندوستان کی حصول آزادی کے سلسلے میں برلن میں منعقد کیا گیا تھا- سبھاش چندر بوس کو یہ نعرہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے ہمیشہ کے لئے اسے اپنا لیا- وہ نیتا جی کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے آخری وقت تک ان کے ساتھ رہے-وہ نیتا جی کے جرمنی کے ان کے آخری سفرمیں بھی ساتھ تھے- اس سفر کی روداد نیتا جی کےبھتیجے سیسرکمار بوس کی کتاب ''آئی ان اے ان انڈیا ٹوڈے'' میں محفوظ ہے (مستفاد اردو آواز ٢٢ جون ٢٠٢١)واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

کوئی تبصرے نہیں: