جمعہ، 26 اگست، 2022

تین طلاقیں دینے کے بعد ایک ساتھ رہنا اور حمل ٹھہر جانے کی صورت میں اس کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٧٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 کیا فرما تے ہیں مفتیان کرام مسائل ذیل کے بارے میں ایک صاحب کی اپنے سالےسے ان بن ہوئی اسی دوران اس نے اپنے سالےسے یہ جملہ کہا کے تیری بہن کو تین طلاق میں اسکو نہیں رکھتا یہ کہنے کے بعد بھی اپنی بیوی سے تعلقات برابر رکھتا رہابیوی حمل سے تھی بچے کی پیدائش ہونے کےبعد اب دو بارہ حمل  تقریبا پندرہ دن کاہے اس حالت میں ان دونوں میاں بیوی کو اپنے گناہ کا احساس ہوا ہے ایک سوال یہ ہے کہ حمل باقی رکھیں یاصفائی کرادیں اور دوسرا سوال یہ ہے میاں بیوی کے باہمی تعلقات کا جائز طریقہ کیاہوگا اور یہ بیوی رہن سہن نان نفقہ کا خرچ کس سے لے گی مع تفصیل کے مدلل جواب مرحت فرماں کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں فقط والسلام

سائل محمد فرقان رشیدی شاملی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


تین طلاق دینے کے باوجود اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم رکھنا حرام ہے اور صریح زنا ہے اور جب اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے اب دونوں کا ساتھ رہنا ناجائز اور حرام ہے لہٰذا دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں اور اتنے عرصے ساتھ رہنے کی وجہ سے حرام کاری کے جو مرتکب ہوئے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب توبہ و استغفار کریں،

 

اور جب اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں تو اس شخص کے لیے حلالہ شرعیہ سے ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز ہوگا اور حلالہ شرعیہ یہ ہے کہ شرعی طریقے سے پہلے خاوند کی عدت گزرنے کے بعد عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ اس مطلقہ سے ہمبستری بھی کرے اس کے بعد جب چاہے طلاق دے اور شوہر ثانی کی طلاق کے بعد جب عدت پوری ہو جائے تو شوہر اول دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔


اگر زنا سے حمل ٹھہر گیا اور مدتِ حمل ابھی پندرہ دن ہوئی ہے، تو ایسی صورت میں حمل ساقط کروانا جائز بلکہ بطورِ پردہ پوشی بہتر ہے۔


مطلقہ عورت کا نفقہ صرف عدت کے مکمل ہونے تک ہی رہتا ہے لہذا مطلقہ کا نفقہ تو ایام عدت کے ختم کے بعد مرد پر واجب نہیں ہے البتہ اولاد کا نفقہ باپ پر واجب ہوتا ہے اگر اولاد ذکور ہے تو بلوغ تک اور اولاد اناث ہے تو نکاح تک نفقہ لازم ہے اور اگر اولاد کمانے کے قابل نہیں ہے تو بھی باپ پر حسب استطاعت نفقہ واجب ہوگا۔


الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ میں ہے 

ذهب الفقهاء إلى أن من طلق زوجته طلقة رجعية أو طلقتين رجعيتين جاز له إرجاعها في العدة۔۔۔أما إذا طلق زوجته ثلاثا، فإن الحكم الأصلي للطلقات الثلاث هو زوال ملك الاستمتاع وزوال حل المحلية أيضا، حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر، لقوله تعالى: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ ١٠/٢۵۵ ط: دار السلاسل)


بدائع الصنائع میں ہے 

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٣/١٨٧)


الموسوعة الفقهية الكوتية میں ہے:

وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل۔ (الموسوعة الفقهیة الکویتیة۳۰/ ۲۸۵)


ہدایہ میں ہے 

وان کان الطلاق ثلثا فی الحرۃ او ثنتین فی الامۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحاً ویدخل بھا ثم یطلقھا یموت عنھا والأصل فیہ قولہ تعالٰی فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ والمراد الطلقۃ الثالثہ۔ (ہدایہ ۲/۳۹۹)


فتاوی ہندیہ میں ہے:

و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

ولايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان۔ (كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٢، ط: دار الفكر)


المبسوط للسرخسی میں ہے

و الذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثًا؛ لأنّ النساء عاجزات عن الكسب؛ و استحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه، و إن كانوا ذكورًا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنًا، أو أعمى، أو مقعدًا، أو أشل اليدين لاينتفع بهما، أو مفلوجًا، أو معتوهًا فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، و هذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج و استحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر۔ (كتاب النكاح، باب نفقة ذوي الأرحام، ٥ / ٢٢٣، ط: دار المعرفة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

کوئی تبصرے نہیں: