منگل، 9 اگست، 2022

مسجد میں بدبودار پینٹ کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٦٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی صاحب بدبودار پینٹ سے مسجد کی دیواروں کو لیپنا کیسا ہے ؟ مدلل جواب مطلوب ہے؟ عین نوازش ہوگی ۔ 

سائل سہیل جےپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احادیثِ  مبارکہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ جیسے انسانوں کو بدبودار چیزوں سے کراہیت ہوتی ہے، ایسے ہی فرشتوں کو بھی اس سے کراہیت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے شریعت مطہرہ نے مسلمانوں کے لئے مسجد کو پاک وصاف رکھنے کا حکم فرمایا ہے چونکہ مسجد اللہ تعالی کا بابرکت اور پُرعظمت گھر ہے، اس کی تعظیم اور اس کے آداب کا خیال رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے، اسی وجہ سے جیسے مسجد کو آباد کرنے کا حکم ہے ویسے مسجد کو پاک صاف رکھنے کا بھی حکم ہے مسجد کی صفائی کے سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں پاک صاف اور معطر رکھنے کا حکم فرمایاہے،


اسی طرح مسجد کو بدبو سے بچانے کے متعلق سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اس درخت سے کھائے حدیث میں پہلے دن آپ نے لہسن کا فرمایا، پھرلہسن پیاز اور گندنا کے بارے میں یعنی لہسن کےمشابہ ایک بو والی سبزی کا فرمایا تووہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ،کیونکہ انسان جس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں، فرشتے بھی اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں


ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اس ممانعت کی علت ملائکہ اور مسلمانوں کوایذا دینا ہے اورحدیث میں جن چیزوں پر صراحت کی گئی ہے ان کے ساتھ کھانے والی اور نہ کھانے والی ہر اس چیز کو لاحق کیا جائے گا،جوبدبودار ہواور یہاں خاص طور پر لہسن اور دیگر احادیث میں پیاز اور گندنا کو بھی ذکر کیا گیا ہے،کیونکہ ان چیزوں کو کثرت سے کھایا جاتاہے(ورنہ ممانعت ہر بدبو والی چیزکے ساتھ خاص ہے ۔


مسؤلہ صورت میں مسجد میں بدبودار پینٹ یا ان کے علاوہ کوئی بھی ایسی چیز جس سے مسجد میں بدبو پھیلے اس کا استعمال احادیث مبارکہ کی روشنی میں کراہت سے خالی نہیں ہے اس سے اجتناب ضروری ہے احادیث مبارکہ میں اس سے منع کیا گیا ہے ،کیونکہ یہ مسجد کی تعظیم اوراس کے آداب کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں اور فرشتوں کی ایذا کا باعث بھی ہے۔


سنن ابی داؤد میں ہے

عن عائشة قالت امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ،باب اتخاذ المساجد فی الدور ١/٧٨ مطبوعہ لاھور)


سنن ترمذی میں ہے 

عن عائشة قالت: امر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب․ رواہ الترمذی مسندا ومرسلاً وقال فی المرسل: ہذا اصح․ (جامع ترمذی، ابواب ما یتعلق بالصلوة، باب ما ذکر فی تطییب المساجد ١/١٣٠)


سنن نسائی میں ہے

عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من اكل من هذه الشجرة،قال اول يوم:الثوم، ثم قال:الثوم والبصل والكراث فلا يقربنا في مساجدنا،فان الملائكة تتاذى مما يتاذى منه الانس (سنن نسائی، کتاب المساجد،باب من یمنع من المسجد ١/١١٦ مطبوعہ لاھور)


عمدۃ القاری میں ہے 

قلت:العلة اذى الملائكة واذى المسلمين ويلحق بما نص عليه في الحديث كل ما له رائحة كريهة من الماكولات وغيرها، وانما خص الثوم هنا بالذكر، وفي غيره ايضا بالبصل والكراث لكثرة اكلهم بها۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، باب ما جاء فی الثوم النیئ، ٦/٢١٠ مطبوعہ  دارالکتب العلمیہ)


الاشباہ و النظائر میں ہے

ویکرہ دخولہ لمن اکل ذا ریح کریھہ ویمنع منہ وکذا کل موذ فیہ۔ (الاشباہ و النظائر ٢/٢٣٢)


غنیة المستملي میں ہے 

یجب أن تصان عن إدخال الرائحۃ الکریہۃلقولہ علیہ السلام من أکل الثوم والبصل والکراث فلا یقربن مسجدنا فإن الملائکۃ تتأذی ممایتاذیٰ منہ بنو آدم متفق علیہ۔ (غنیة المستملي ٦١٠)۔ واللہ اعلم بالصواب ۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: