سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب کیا مقروض آدمی کو سود کی رقم دے سکتے ہیں ؟ مدلل جواب مطلوب ہے۔ عین نوازش ہوگی۔
سائل سہیل جےپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
بینک سے ملنے والی سودی رقم حرام اور واجب التصدق ہے اور مال حرام کا حکم یہ ہے کہ اس مال کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اصح قول کے اعتبار سے مال حرام کا تصدق علی الفقراء یعنی مستحق زکوۃ کو دینا بلا نیت ثواب ضروری ہے یعنی صدقات واجبہ کی طرح اس میں بھی تملیک فقراء واجب ہے۔
زکوۃ کا مستحق وہ شخص ہے جو غریب اور ضروت مند ہے اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد اتنی رقم یا سامان نہیں ہے جس کی قیمت نصاب کے برابر ہو، یا اتنی رقم موجود تو ہے، لیکن اس پر اتنا قرض ہے کہ اگر وہ الگ کیا جائے تو اس کے پاس نصاب سے کم رقم بچے تو ایسے شخص کو قرض کی ادائیگی کے لئے سودی رقم بلا نیت ثواب دی جاسکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
ویردّونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (فتاوی شامی کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ٩/۵۵۳ زکریا)
بذل المجہود میں ہے
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ / باب فرض الوضوء ١/٣٧ سہارنفور۔۔۔ ١/٣۵٩ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
معارف السنن میں ہے
من ملک بملک خبیث ولم یمکنہ الرد إلی المالک فسبیلہ التصدق علی الفقراء الخ۔ (معارف السنن ٢/٣٤ أشرفیۃ دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں