بدھ، 29 جون، 2022

کھلی جگہ میں دوران نماز بارش شروع ہوجائے تو کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٤٩

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ اگر مسجد کے صحن میں جماعت ہورہی ہو اور اچانک تیز بارش ہونے لگ جائے تو امام کے لئے کیا حکم ہے نماز پوری کرے یا درمیان میں ہی سلام پھیر دے یا اسکے علاوہ کوئ اور صورت ہو جسکو امام اختیار کر لے وضاحت کے ساتھ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں 

سائل: محمد رضوان جمالپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نماز کے توڑنے کی رخصت میں اصولی بات یہ ہے کہ اگر دوران نماز کوئی ایسی چیز درپیش ہو جس سے جان یا مال کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو نماز کو توڑنا جائز ہے۔


جیسا کہ علامہ شامی کی اس عبارت سے مترشح ہوتا ہے۔ ویباح قطعہا لنحو قتل حیة، وندّ دابة، وفور قدر، وضیاع ما قیمتہ درہم لہ أو لغیرہ (الدر المختار: ۲/٤۲۵، ٤۲٦، ط: زکریا دیوبند)


مسؤلہ صورت  میں اگر صورت حال ایسی ہوجائے کہ بارش کی وجہ سے مال کے ضیاع کا اندیشہ ہو جیسے کہ موبائل فون وغیرہ بارش میں بھیگ کر خراب ہوجانے کا خوف ہو یا حالت ایسی ہو کہ بارش کے پانی سے بیمار ہوجائے گا تو اس کے لئے نماز توڑنے کی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 26 جون، 2022

مجبوری میں قبروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٤٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

سڑک کے کنارے قبرستان ہے اور سڑک چوڑی ہورہی ہے

جس کی وجہ سے سرکار کی طرف سے نوٹس جاری ہوے تو اب قبروں کو منتقل کیسے کیا جائے کیا شریعت مطہرہ میں اس کا حکم ہے؟

سائل: ابو حنظلہ ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جب موقوفہ زمین میں میت کو ایک مرتبہ قبر میں دفن کردیا جائے اور مٹی ڈال دیجائے اس کے بعد قبر سے میت کا نکالنا اور اس کو دوسری جگہ منتقل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ عذر شدیدہ کی وجہ سے مثلاً کسی غیر کی زمین میں بلااجازت تدفین کی گئی ہو یاغصب شدہ زمین میں مردہ کو دفنایا گیاہو یا وہ مجبور ہو اس طرح کہ حکومت کی طرف سے روڈ تعمیر میں جبری حکم ہو اور نہ ہٹانے کی صورت میں مردوں کی بے حرمتی کا احتمال ہو تو اس صورت میں اگر قبریں مٹی ہوگی ہوں تو اس قبر کو برابر کردینا یا اگر قبریں مٹی نہ ہوئی ہو تو میت کو منتقل کرنے کی اجازت ہے۔


مسؤلہ صورت میں وہ زمین اگر کسی شخص کی مملوکہ نہیں ہے، بلکہ عام زمین ہے جہاں یہ قبریں موجود ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ ان قبروں کو باقی رکھے تاہم اگر مجبور ہو اور مسمار اور بے حرمتی کئے جانے کا اندیشہ ہو تو ورثاء ان قبروں کو دوسرے جگہ منتقل کرسکتے ہیں۔


فتاوی شامی میں ہے

(ولا يخرج منه) بعد إهالة التراب (إلا) لحق آدمي ك (أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً۔ فتاوی شامی ٣/١٤٥)


فتاوی ہندیہ میں ہے

ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس۔ (فتاوی ہندیہ ٤/٤٨٦)


کبیري میں ہے

وأما بعد الدفن فلا یجوز إخراجہ حتی قالو: لو أن امرأة مات ولدُہا ودفن ببلد غیر بلدہا، وہي لا تصبر، وأرادت نبشَہ ونقلَہ إلے بلدہا لا یباح لہا ذلک، ولا یباح نبشہ بعد الدفن أصلا إلا لما تقدم من سقوط مال فیہ أو کون الأرض في حق الغیر، وحینئذ إن شاء ذلک الغیر أخرجہ، إن شاء سوی القبر وزرع فوقَہ، وجوز البعض النقل بعد الدفن استدلالا بما نقل أن یعقوب -علیہ السلام- بعد ما مضی علیہ زمان نُقِل من مصر إلی الشام لیکون مع آبائہ، والصحیح الأول؛ لأن شرع من قبلنا إذا لم یقص اللہ أو رسولہ علینا من غیر تغییر لا یکون شرعا لنا؛ لا یجوز الاستدلال بہ، وفي القنیة مقابر بلغ إلیہا حطم جیحون لا یجوز نقلہم إلی موضع آخر․ (کبیري، ص: ۶۰۷،ط: در سعادت، ترکی)


البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے

(قوله ولا يخرج من القبر إلا أن تكون الأرض مغصوبة) أي بعد ما أهيل التراب عليه لا يجوز إخراجه لغير ضرورة للنهي الوارد عن نبشه، وصرحوا بحرمته ،وأشار بكون الأرض مغصوبة إلى أنه يجوز نبشه لحق الآدمي كما إذا سقط فيها متاعه، أو كفن بثوب مغصوب ،أو دفن في ملك الغير،أو دفن معه مال أحياء لحق المحتاج قد «أباح النبي - صلى الله عليه وسلم - نبش قبر أبي رعال لعصا من ذهب معه» كذا في المجتبى ،قالوا: ولو كان المال درهما. ودخل فيه ما إذا أخذها الشفيع فإنه ينبش أيضا لحقه كما في فتح القدير. وذكر في التبيين أن صاحب الأرض مخير إن شاء أخرجه منها، وإن شاء ساواه مع الأرض،وانتفع بها زراعة أو غيرها۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ٢/٢١٠)


اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں فتاوی بنوریہ میں اس طرح سے وضاحت فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

سوال 

کیا فرماتے ہیں علماءِ  کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک روڈ بنایا جا رہا ہے، اور یہ روڈ قبرستان کے پاس سے گزرے گا،جس کی وجہ سے دو قبریں ایسی ہیں جو روڈ کے احاطے میں آتی ہیں،ان میں سے ایک قبر چھ سال اور ایک قبر دس سال پرانی ہےتو کیا ان قبور کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے؟


جواب

صورتِ  مسئولہ میں  جوقبریں پرانی ہوکر مٹی ہوگئی ہوں  اس جگہ کو سڑک میں شامل کرسکتے ہیں، البتہ  اگر قبریں مٹی نہ ہوئی ہوں اور و ہ زمین  کسی شخص کی مملوکہ نہیں ہے، بلکہ عام زمین ہے  جہاں  یہ قبریں موجود ہیں تو انتظامیہ کو چاہیے کہ ان قبروں کو باقی رہنے دیاجائے۔ تاہم اگرمسمار کیے جانے کااندیشہ ہوتو  ورثاء ان قبروں کو دوسرے مقام پر منتقل کرسکتے ہیں۔


فتاوی شامی  میں ہے :


’’( ولا يخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً‘‘.(2/238)


فتاوی ہندیہ میں ہے:


’’ ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس‘‘. (4/486)


وفیه أیضاً:


’’ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها، وإذا حفر الرجل قبراً في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتاً؛ لاينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره؛ ليكون جمعاً بين الحقين، كذا في خزانة المفتين، وهكذا في المحيط۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤١٠٢٢٠٠٣٠٨)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعہ، 24 جون، 2022

گری پری چیز جب اٹھالے تو اس کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٤٧

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب مسٔلہ یہ ہے کہ زید کو پیسے میلے آٹو رکشہ میں سے اور اس کا اعلان کروایا اور اسکے دوسال ہوگیے ابھی تک اس روپیہ کا  کوئی مالک نہیں ملا ہے اب اس روپیہ کا مسٔلہ کیا ہے ؟

سائل: مولانا عنایت اللہ ابن عبد اللہ پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کسی بھی جگہ گری پڑی رقم اور چیز وہ لقطہ کے حکم میں ہوتی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ جس شخص کو ایسی رقم یا چیز ملے تو اس رقم یا چیز کی حتی الوسع تشہیر کریں، یعنی جس جگہ سے رقم ملی ہے وہاں اور اُس سے متعلقہ جگہ مثلاً بازار وغیرہ میں مالک کی تلاش و جستجو میں لگا رہے، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو اپنے پاس محفوظ  رکھے،  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکلی پیش نہ آئے۔ اور  اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو ایسی صورت میں مالک کی طرف سے کسی  فقیر کو صدقہ کردینا جائز ہے، اور اگر خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجائے تو اسے اپنی رقم یا چیز کے مطالبہ کا پورے پورا اختیار حاصل ہوگا چاہے اپنی قیمت کا مطالبہ کرے یا صدقہ کا ثواب لے لے۔


صورت مسئولہ میں ملنے والے پیسے لقطہ کے حکم میں ہے، اور دو سال مکمل اعلان کیا اور مالک کا پتہ نہ چلا تو اگر حفاظت ممکن ہو تو حفاظت کرنا بہتر ہے ورنہ کسی غریب کو صدقہ کردی جائے، اور اگر پانے والا خود مستحق یعنی غیر صاحب نصاب ہو تو وہ خود بھی رکھ سکتا ہے پھر اگر بعد میں مالک مل جائے تو اسے اختیا ر ہو گا کہ اِس صدقہ کو برقرار رکھے یا اِس کا ضمان آپ سے وصول کرے۔


ملتقي الأبحر میں ہے 

وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء وإن كانت حقيرة كالنوى وقشور الرمان والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف وللمالك أخذها ولا يجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة ويحل إن بين علامتها من غير جبر (ملتقي الأبحر  ١/ ٥٢٩-٥٣١)


البحر الرائق میں ہے 

(لقطة الحل والحرم أمانة إن أخذها ليردها على ربها وأشهد)… وعرف إلى أن علم أن ربها لا يطلبها)… ثم تصدق) أي إن لم يجئ صاحبها فله أن يتصدق بها على الفقراء إيصالا للحق إلى المستحق وهو واجب بقدر الإمكان وذلك بإيصال عينها عند الظفر بصاحبها وإيصال العوض وهو الثواب على اعتبار إجازته التصدق بها وسيأتي أن له أن ينتفع بها فعلم أنه مخير بينهما وسكت عن إمساكها وله ذلك رجاء الظفر بصاحبها كما في الهداية۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري  ٥/١٦٣)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين۔۔۔۔ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع علىالملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين۔ (الفتاوی الھندیة کتاب اللقطۃ، ٢/٢٨٩ ط: دار الفکر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

بدھ، 22 جون، 2022

نماز میں قومہ اور جلسہ کی دعاؤں کا حکم سوال نمبر ٣٤٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 حضرت معلوم یہ کرنا ہے کہ نماز میں قومہ میں ربنا لک الحمد کے بعد حمدا کثیرا طیبا مبارکا پڑھنا۔ اسی طرح جلسہ میں رب اغفرلی وارحمنی وعافنی  پڑھنا کیسا ہے برائے مہربانی یہ بھی بتادیں کہ یہ حدیث سے ثابت ہے یا نہیں  اور ان کو پڑھنا سنت ہے یا مستحب ۔امام ان کو پڑھ سکتاہے یا نہیں؟ پوری دعاء با حوالہ لکھیں آپ کا عین کرم ھوگا۔

سائل: ابوالحارث اتراکھنڈ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نماز میں اذکار و دعائیں کرنا امام اور منفرد دونوں کے لئے جائز ہے، یعنی ان دعاؤں کو پڑھنے سے نماز میں کسی طرح کی خرابی نہیں آتی اسی طرح ربنا لک الحمد کے بعد حمدا کثیر طیباً مبارکا فیہ کا اضافہ کرنا مقتدی کے لئے جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے امام کی اتباع میں تاخیر واقع نہ ہوتی ہو۔ البتہ فقہاء احناف نے یہ صراحت فرمائی ہے کہ جماعت کی نماز میں چونکہ ہر طرح کے لوگ شریک رہتے ہیں، اس لئے امام کے لئے اولیٰ یہی ہے کہ وہ قومہ اور جلسہ میں زائد ذکر ودعا نہ کرے؛ کیوںکہ اس کی وجہ سے بعض مقتدیوں کو گرانی ہوسکتی ہے اور احادیث میں مقتدیوں کی رعایت وارد ہوئی ہے۔


اسی طرح احادیث مبارکہ میں نماز کے اندر قومہ وجلسہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ دعائیں پڑھنا بھی ثابت ہے، ’’ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ‘‘ اور جلسہ میں اللہم اغفرلي وارحمني واجبرني واہدني وارزقني‘‘ پڑھا کرتے تھے۔


فتاوی قاسمیہ میں اس طرح کے سوال کے جواب میں حضرت مفتی شبیر احمد صاحب مرادآبادی نے یہ تفصیلی جواب بالدلائل ذکر فرمایا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔

احادیث میں رکوع سے کھڑے ہوکر ’’الحمد ﷲ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ‘‘ اور رب اغفرلي وارحمني، واہدني وارزقني وعافني‘‘ پڑھنا وارد ہوا ہے۔ اور فرض نمازوں میں بھی ان دعاؤں کا پڑھنا مستحب ہے۔ اور مذکورہ عبارت : ’’محمول علی النوافل، ومحمول علی التہجد‘‘ علامہ شامی نے خزائن سے نقل کرنے کے بعد آگے خود تحریر فرمایا ہے کہ خزائن کے محشی نے علامہ زیلعیؒ پر رد کیا ہے کہ انہوں نے ان دعاؤں کو تہجد کے ساتھ خاص کیا ہے؛ لہٰذا مذکورہ عبارت سے ان دعاؤں کو نوافل وتہجد کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ، ڈابھیل ۵/ ۶۱۶، کتاب الفتاوی ۳/ ۱۰۸)


عن رفاعۃ بن رافع الذرقي قال: کنا یوما نصلي وراء النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فلما رفع رأسہ من الرکعۃ قال: سمع اللہ لمن حمدہ، قال رجل وراء ہ: ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ، فلما انصرف قال: من المتکلم؟ قال: أنا، قال: رأیت بضعۃ وثلاثین ملکا یبتدرونہا أیہم یکتبہا أول۔ (بخاري، کتاب الأذان، باب فضل اللہم ربنا لک الحمد، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۱۰، رقم: ۷۹۱، ف: ۷۹۹، السنن الکبری للبیہقي، قدیم ۲/ ۸۵، دارالفکر جدید ۲/ ۴۰۱، رقم: ۲۶۰۷)


عن ابن عباس أن النبي ﷺ کان یقول بین السجدتین: اللہم اغفرلي وارحمني واجبرني واہدني وارزقني۔ (ترمذي شریف، أبواب الصلاۃ، باب ما یقول بین السجدتین، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۶۳، دارالسلام، رقم: ۲۸۴)


وما ورد محمول علی النفل (تحتہ في الشامیۃ:) أي تہجدا أو غیرہ۔ (خزائن) وکتب في ہامشہ: فیہ رد علی الزیلعي حیث خصہ بالتہجد۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۲۱۳، کراچی ۱/ ۵۰۵، ۵۰۶)


وقال علی أنہ إن ثبت في المکتوبۃ فلیکن حالۃ الإنفراد أو الجماعۃ، والمأمومون محصورون لا یتثقلون بذلک کما نص علیہ الشافعیۃ، ولا ضرر في التزامہ، وإن لم یصرح بہ مشایخنا، فإن القواعد الشرعیۃ لا تنبوعنہ کیف والصلاۃ والتسبیح والتکبیر والقراء ۃ کما ثبت في السنۃ۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۲۱۳، کراچی ۱/ ۵۰۶)


أقول: بل فیہ إشارۃ إلی أنہ غیر مکروہ إذ لوکان مکروہا لنہي عنہ … وعدم کونہ مسنونا لا ینافی الجواز … بل ینبغي أن یندب الدعاء بالمغفرۃ بین السجدتین۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۲۱۳، منحۃ الخالق علی البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۱/ ۵۶۱، کوئٹہ ۱/ ۳۲۱) فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ (فتاوی قاسمیہ ٥/٧٣٠) واللہ اعلم بالصواب ۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

پیر، 20 جون، 2022

مونچھیں بڑی ہونے کی وجہ پانی وغیرہ میں لگ جائے تو مشروب مکروہ ہو جاتا ہے یا نہیں؟ سوال نمبر ٣٤٥

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب مسئلہ پوچھنا تھا کہ چائے میں اگر مونچھیں لگ جائیں مونچھیں بڑی ہونے کی وجہ سے تو کیا وہ مشروب مکروہ ہو جاتا ہے اور کیا وہی مکروہ ہوتا ہے جو اس ایک کھونٹ میں آئے یا پورا مشروب مکروہ ہوجاتا ہے مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ خیرا کثیرا

سائل محمد عبداللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مونچھ کے بال کاٹنا اور ناخن تراشنا وغیرہ یہ چیزیں امورِفطرت میں سے ہیں، انہیں بڑھاناشریعت میں پسندیدہ نہیں ہے، لہذا مونچھوں کا اس حد تک بڑھ جانا یا اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائے، شرعاً درست نہیں ہے۔ مشکوٰة شریف ص ۳۸۱ پر حضرت زید بن أرقم رضی الله عنہ سے مروی اللہ کے رسول کی حدیث ہے کہ "من لم یأخذ من شاربہ فلیس منّا" حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص مونچھیں نہیں تراشتا وہ ہم میں سے نہیں۔


البتہ اگر مونچھیں بڑی ہونے کی وجہ سے کھانے یاپینے کی چیزوں میں لگ جائیں تو اس سے وہ کھانے یاپینے کی چیز مکروہ نہیں ہوتی، لیکن ایک مسلمان کو اپنے نبی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے داڑھی بڑھانی چاہیے اور مونچھیں کتروانی چاہئیے۔


لہذا صورت مسئولہ میں کسی بھی مشر ب میں مونچھوں کے بال لگنے سے کھانا پینا مکروہ نہیں ہوتا ہے، البتہ طبعی طور پر آدمی کو اس سے نفرت اور گھن پیدا ہوتی ہے۔ 


جامعہ بنوریہ کے ایک فتوے میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات اور طرزِ عمل سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ظاہری ہیئت اور شکل و صورت کے بارے میں بھی امت کی راہ نمائی فرمائی ہے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:


 " الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ. " (رواه البخاري ومسلم)

ترجمہ :  پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں: ختنہ، زیر ناف بالوں کی صفائی، مونچھیں تراشنا، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)


بعض دوسری حدیثوں میں ان چیزوں کو انبیاء و مرسلین کی سنت اور ان کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اور چوں  کہ یہ انسانی فطرت کے تقاضے ہیں؛ اس لیے ہونا بھی یہی چاہیے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طریقہ اور یہی ان کی تعلیم ہو ۔ ان سب میں جو چیز مشترک ہے وہ طہارت و صفائی اور پاکیزگی ہے جو بلاشبہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔لہٰذا مونچھ کے بال کاٹنا امورِفطرت میں سے ہے، انہیں بڑھاناشریعت میں پسندیدہ نہیں ہے. نبی کریم ﷺ کا معمول مونچھیں خوب کترنے کا تھا، اس لیے مونچھیں اچھی طرح کتروانا سنت ہے،یعنی قینچی وغیرہ سے  کاٹ کر اس حد تک چھوٹی کردی جائیں کہ مونڈنے کے قریب معلوم ہوں، احادیثِ طیبہ میں مونچھوں کے بارے میں ’’جز‘‘،’’اِحفاء‘‘اور ’’اِنہاک‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان سے قینچی وغیرہ سے لینا ہی مفہوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ ان الفاظ کے معنی مطلق کاٹنے یا مبالغہ کے ساتھ کاٹنے یا لینے کے ہیں، باقی استرہ اور بلیڈ سےمنڈانا بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ قینچی کا استعمال کیاجائے۔


 اوپر کے ہونٹوں کے  دونوں جانب جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے  یہ مونچھ کی شرعی حد ہے۔


مونچھ کا اس حد تک بڑھ جانا یا اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں لگ رہی ہو شرعاً درست نہیں،  البتہ مونچھیں بڑی ہونے کے سبب کھانے پینے کی اشیاء میں لگ جائے تو کھانے پینے کی اشیاء مکروہ نہیں ہوں گی، لیکن ایک مسلمان کو اپنے نبی سرکاردوعالم ﷺکی اقتدا کرتے ہوئے داڑھی بڑھانی چاہیے اور مونچھیں کتروانی چاہییں۔ اور اتنی بڑی مونچھیں رکھنے پر حدیث میں  وعید وارد ہوئی ہے۔ حدیث شریف میں ہے:


"حدثنا المكي بن إبراهيم، عن حنظلة، عن نافع، ح قال أصحابنا: عن المكي، عن ابن عمر رضي الله عنهما: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ’’من الفطرة قص الشارب". (صحیح البخاري،باب قص الشارب: ۷/ ۱۶۰، ط: دار طوق النجاة)


ترجمہ: مونچھوں کا کاٹنا انسانی فطرت میں سے ہے۔


"وعن زيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:’’من لم يأخذ شاربه فليس منا‘‘. رواه أحمد والترمذي والنسائي". (مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، ص: ۳۸۱ )


ترجمہ:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو شخص مونچھیں نہیں تراشتا وہ ہم میں سے نہیں''۔


"عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّوَارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً»". (رواه مسلم)

ترجمہ : حضرت انس رضی

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ۴۰روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔ (صحیح مسلم)


اس کے علاوہ   کنز العمال میں بیہقی کی شعب الایمان کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ :

”رسول اللہﷺ ہر جمعہ کو نکلنے سے پہلے اپنے ناخن تراشتے اور لبیں لیتے تھے“ ۔


"عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى»". (رواه البخارى ومسلم)

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : مونچھوں کو خوب باریک کرو اور ڈاڑھیاں چھوڑو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)


وفي رد المحتار:


"واختلف في المسنون في الشارب هل هو القص أو الحلق؟ والمذهب عند بعض المتأخرين من مشايخنا أنه القص. قال في البدائع: وهو الصحيح. وقال الطحاوي: القص حسن والحلق أحسن، وهو قول علمائنا الثلاثة نهر". (۲/ ۵۵۰، ط: سعید)


فتح الباری میں ہے:


"وقال القرطبي: وقص الشارب أن يأخذ ما طال على الشفة بحيث لا يؤذي الآكل ولا يجتمع فيه الوسخ". (10/347)


فتاوی محمودیہ(19/425):


’’اوپر کے ہونٹ پر دونوں کناروں تک جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے، یہی مونچھوں کی حد ہے ‘‘۔


شرح ریاض الصالحین لابن عثیمین میں ہے:


"الثالث: قص الشارب: وهو الشعر النابت فوق الشفة العليا وحده: الشفة كل ما طال على الشفة العليا فهو شارب". (فتاوی شامی  550/2  407/6 642/1 ط: سعید)


(دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : 144003200195)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 18 جون، 2022

مفقود الخبر شوہر کی بیوی کے نکاح کا حکم سوال نمبر ٣٣٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

ایسا کوئی مسئلہ ہے جس میں فقہاء کرام نے کہا ہو کے اگر شوہر 90سال بھی گھر سے باہر رہے تو نکاح نہیں ٹوٹتا ؟

سائل اشتیاق عالم گڈاوی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شوہر زندہ ہو اور عورت کو معلوم ہو کہ وہ کہاں ہے تو موت تک اس کا نکاح باقی رہے گا البتہ مفقود الخبر شوہر کے مسئلہ کا حکم مستقل الگ ہے مفقود الخبر شوہر کا مسئلہ یہ ہے کہ جس عورت کا شوہر اس طرح لاپتہ ہو کہ اس کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی علم نہ ہو اور بیوی کے خرچ اور گزر بسر کا انتظام نہ ہوسکتا ہو یا بدون شوہر بیٹھے رہنے سے ابتلائے معصیت کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں  عورت اپنی عفت کی پاسداری کے لئے کیا کریں کیا  اس کے دوسرے نکاح کی کوئی صورت ہوسکتی ہے؟ 

اس سلسلے فقہاء احناف کے نزدیک مختلف اقوال ہیں ایک قول ٩٠ سال کا ہے کہ اتنی مدت انتظار کرنے بعد اپنے شوہر کی عدت طلاق پوری کرنے کے بعد دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے ایک قول ١٠٠ سال کا ہے ایک قول ٧٠ ستر سال کا ہے البتہ زمانے کے حوادث کے تحت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے حضرت امام مالک کے قول پر فتوی دیا ہے کہ وہ چار سال تک انتظار کریں اس کے بعد بھی کوئی خبر نہ ہو تو اس کے لئے قاضی کی اجازت سے دوسرا نکاح کرنا جائز ہے اس کے لئے الحیلۃ الناجزہ کا مطالعہ مفید رہے گا جو حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی تحریر کردہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


نیز فتاوی بنوریہ کا ایک تفصیلی استفتاء ہے اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔

مفقود الخبر (گم شدہ /لاپتا شخص) کے انتظار کی مدت کیا ہے؟

https://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detail/%D9%85%D9%81%D9%82%D9%88%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%A8%D8%B1-%DA%AF%D9%85-%D8%B4%D8%AF%DB%81-%D9%84%D8%A7%D9%BE%D8%AA%D8%A7-%D8%B4%D8%AE%D8%B5-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%B8%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%AF%D8%AA-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DB%81%DB%92



جمعہ، 17 جون، 2022

مقتدی قاعدہ اولی یا قاعدہ اخیرہ میں شریک ہوا اور تشہد کے ختم سے پہلے ہی امام کھرا ہوجائے تو کیا کریں؟ سوال نمبر ٣٤٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ اگر امام صاحب پہلے قاعدے میں بیٹھے ہوں اور کوئ مقتدی آکر امام کے ساتھ شریک ہونے لگے مگر ابھی مقتدی سکون سے بیٹھا نہ ہو بیٹھنے کے قریب ہو کہ امام صاحب تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہو گئے یا آخری رکعت تھی کہ امام صاحب نے سلام پھیر دیا تو کیا ان صورتوں میں مقتدی پر تشہد کا پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

سائل: محمد رضوان جمالپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مقتدی کے لیے نماز کے افعال میں امام کی اتباع کرنا لازم ہے مقتدی نماز کے افعال کو امام کے ساتھ ساتھ ادا کرے یا پھر امام کے اس رکن کو ادا کرنے کے متصل بعد ادا کرے لیکن اگر کسی واجب کی ادائیگی میں مقتدی مصروف ہو اور امام دوسرے رکن یا واجب کی طرف منتقل ہو جائے یا سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں مقتدی اپنے واجب کو ادا کر کے امام کی اتباع کرے بشرطیکہ کسی رکن میں امامکی اقتدی کے فوت ہونے کا خوف نہ ہو ۔


یہی حکم تشہد کا بھی ہے کہ امام مقتدی کے تشہد مکمل کرنے سے پہلے کھڑا ہو جائے تو مقتدی کو چاہیے کہ وہ پہلے تشہد مکمل کرے اس کے بعد کھڑا ہو، تشہد مکمل کئے بغیر کھڑا نہیں ہونا چاہئے اسی طرح مقتدی نے تشہد مکمل نہیں کیا اور امام نے سلام پھیر دیا تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا تشہد مکمل کرکے سلام پھیرے اس لئے کہ تشہد واجب ہے اور واجب چھوٹنے کی وجہ سے نماز مکروہ تحریمی کے ساتھ ادا ہوتی ہے، البتہ چونکہ وہ امام کی اقتداء میں ہے اور مقتدی پر کسی واجب کے چھوٹنے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا اس لئے سجدہ سہو لازم نہیں آئے گا۔


البتہ درود شریف اور دعا چھوڑدے کیونکہ یہ مسنون ہیں ان کے چھوٹ جانے سے نماز ادا ہو جاتی ہے البتہ چونکہ تشہد واجب ہے، لہذا اس کو ادا کرنے کے لیے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے اور آخری رکعت کےسلام میں یا مابقیہ رکعات کی ادائیگی میں تاخیر کی گنجائش ہے۔


فتاوی عالمگیری میں ہے

إذا أدرك الإمام في التشهد وقام الإمام قبل أن يتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاة قبل أن يتم المقتدي التشهد فالمختار أن يتم التشهد. كذا في الغياثية وإن لم يتم أجزأه۔ (الفتاوى الهندية ١/٩٠)


فتاوی شامی میں ہے

(قوله: بخلاف التشهد) أي فإن الإمام لو سلم أو قام للثالثة قبل إتمام المؤتم التشهد فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه كما قدمه في فصل الشروع في الصلاة (قوله لأن المخالفة إلخ) هذا التعليل عليل لاقتضائه فرضية المتابعة المذكورة وقدمنا عن شرح المنية أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة ما لم يعارضها واجب، فلا يفوته بل يأتي به ثم يتابعه، بخلاف ما إذا عارضها سنة لأن ترك السنة أولى من تأخير الواجب، وهذا موافق لما قدمناه آنفا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٤٤٨)


فتاوی شامی میں ہے

والحاصل أن المتابعة في ذاتہا ثلاثة أنواع مقارنة لفعل الإمام ․․․معاقبة للابتداء فعل إمامہ مع المشارکة في باقیہ، ومتراخیة عنہ، لمطلق المتابعة الشامل لہذہ الأنواع الثلاثة یکون فرضًا في الفرض وواجبًا في الواجب وسنة في السنة الخ۔ ( رد المحتار : ۲/١٦٦ ط: زکریا)


فتاوی شامی میں ہے

(بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد)؛ فإنه لايتابعه، بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعية التشهد تابعه؛ لأنه سنة والناس عنه غافلون.

(قوله فإنه لايتابعه إلخ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية، وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير، فحين قعد قام إمامه أو سلم، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحاً، ثم رأيته في الذخيرة ناقلاً عن أبي الليث: المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه اه ولله الحمد۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٢٠٠)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعرات، 16 جون، 2022

عقد نکاح میں بطور گواہ صرف عورتیں ہو تو کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٤٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

اگر چار عورتوں کی موجودگی میں ان کی گواہی کے ساتھ نکاح کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے چار عورتوں کی گواہی معتبر ہوگی یا نہیں جبکہ کوئی مرد موجود نہ ہو اور اگر معتبر نہیں ہوگی تو اس کی کیا دلیل ہے؟ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں 

سائل: زبیر ناسک


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح کے صحیح ہونے کے لیے مجلسِ عقد میں کم ازکم بطور گواہ دومسلمان مرد کا موجودرہنا ضروری ہے اور اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو کم سے کم ایک مرد اور دوعورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ایجاب و قبول کے وقت کوئی مرد نہ ہو، صرف عورتیں ہوں تو نکاح صحیح نہ ہوگا لہذا نکاح میں عورتیں گواہ بن سکتی ہیں لیکن خالص عورتیں ہی عورتیں ہو تو کوئی مرد گواہ میں نہ ہو تو ان کی گواہی سے نکاح منعقد نہ ہوگا اس لئے کہ نکاح منعقد ہونے کے لئے شرط ہے کہ ایجاب و قبول دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ہوں گواہ آزاد عاقل و بالغ ہوں اور سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سنے ہوں صرف عورتوں یا خنثی کی گواہی سے نکاح منعقد نہیں ہوسکتا جب تک کے ان کے ساتھ ایک مرد نہ ہو۔


سنن الترمذي میں ہے

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: البغایا اللاتي ینکحن أنفسہن بغیر بینة۔ (سنن الترمذي ۱/۲۱۰رقم: ۱۱۰۹)


فتح القدیر میں ہے

ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین عاقلین بالغین مسلمین الخ، أما اشتراط الشہادة فلقولہ علیہ السلام: لا نکاح إلا بشہود۔ (فتح القدیر / کتاب النکاح ۳/۱۹۹زکریا)


فتاوی ھندیہ میں ہے 

ولا یشترط وصف الذکورۃ حتی ینعقد بحضور رجل وامرأتین کذا فی الھدایۃ ولا ینعقد بشھادۃ المرأتین بغیر رجل و کذا الخنثین اذا لم یکن معھما رجل ھکذا فی فتاویٰ قاضی خان۔ (فتاوی عالمگیری ٢٦٨ ١/٢٦٧ کتاب النکاح الباب الاول فی تفسیرہ شرعا و صفتہ و رکنہ و شرطہ و حکمہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

بدھ، 15 جون، 2022

مدرسہ میں زکوۃ کی رقم سے اساتذہ کے لئے سامان خریدکر رکھنا سوال نمبر ٣٤١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیسے ہیں مفتی صاحب مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ جیسے مدارس میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاتی ہے عام طور پر تو اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی رقم سے اساتذہ یا مہمانوں کے لیے کھانے رکھنے کا سامان جیسے ہاٹ پاٹ پلیٹ وغیرہ وغیرہ لے آۓ تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں مفتی صاحب

سائل: فضل الرحمن بلگرام ہردوئی یوپی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے مصارف فقراء ومساکین وغیرہ ہیں جن پر تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے، نیز حسبِ تصریح فقہائے حنفیہ اموالِ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے یعنی اس مال کو کسی اہل مصرفِ زکوٰۃ کی ملکیت میں بحیثیتِ تملیک کہ دینا ضروری ہے۔

 

صاحب بدائع نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایاہے کہ، اللہ تعالیٰ نے آتواالزکوٰۃ کا حکم فرمایا، اور ایتاء میں  تملیک کے معنیٰ پائے جاتے ہیں، اور اسی وجہ سے اللہ نے زکوٰۃ کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے اور تصدق میں تملیک ہے۔ وقد أمراللہ تعالی الملاک بإیتاء الزکوٰۃ لقولہ عزوجل وآتواالزکوٰۃ والایتاء ھو التملیک ولذاسمیٰ اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ عزوجل إنما الصدقات للفقرآء والتصدق تملیک (بدائع ۲/ ۴۵۶)

اور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جہاں لام کی إضافت ملاک کی طرف ہو تو وہ ملکیت کے لئے خاص ہوجاتا ہے۔ أما النص فقولہ تعالیٰ إنما الصدقات للفقرآء وقولہ عزوجل فی أموالھم حق معلوم للسائل والمحروم والإضافہ بحرف اللام تقتضی الإختصاص بجھۃ الملک إذا کان المضاف إلیہ من أھل الملک۔ دوسری جگہ إرشاد ہے کہ زکوٰۃ فقیر کو مالک بنانے سے ہی ادا ہوگی۔ فإن الزکاۃ تملیک المال من الفقیر۔ (۲/۲۸۰ بدائع)

صاحب ہدایہ نے ہدایہ میں زکوٰۃ کے مال کومسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیں کہ لإنعدام الملک وھوالرکن۔ (ہدایہ جلد۱/ ۲۲۲)

صاحب فتح القدیر نے بھی صدقہ کی حقیقت کو تملیک سے تعبیر کیاہے۔ لإنعدام التملیک وھوالرکن: فإن اللہ تعالیٰ سماھا صدقۃ،وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال من الفقیر (فتح القدیر۲/۲۷۲)

صاحب بنایہ نے بھی زکوٰۃ میں تملیک کو جزو لاینفک کا درجہ دیاہے۔ لأن الرکن فی الزکوٰۃ التملیک من الفقیر۔ (البنایہ ۳/ ۴۶۲)

صاحب بحر نے بھی البحر الرائق میں زکوٰۃ کے مال کو مسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہوئے لکھا ہے ہیں کہ۔ وعدم الجواز لإنعدام التملیک الذی ھو الرکن۔ (البحرالرئق۲/۲۷۲)

شامی میں رفاہی افعال میں خرچ کے عدم جواز کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی وجہ عدم تملیک کو قرار دیتے ہوے رقم طراز ہیں۔ ویشترط أن یکون الصرف (تملیکاً) … وکل مالا تملیک فیہ۔ (شامی ۳/ ۲۹١)

الخلاصۃ الفقہیہ میں بھی تملیک کو اصل کا درجہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ، زکوٰۃ بلا تملیک مال درست نہیں ہے، پھر ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہر ایسی عبادت جو تملیک سے خالی ہو وہاں زکوۃ دینادرست نہیں ہے۔ والأصل فیہ أن الواجب فیہ فعل الإیتاء فی جزء من المال، ولا یحصل الإیتاء إلا بالتملیک، فکل قربۃ خلت عن التملیک لایجزیٔ عن الزکوٰۃ۔ (الخلاصۃ الفقہیہ ۱ ص۴۵۳)   


صورت مسئولہ میں زکوٰۃ کی رقم سے اساتذہ یا مہمانوں کے لیے کھانے رکھنے کا سامان لاکر رکھنا درست  نہیں ہے اس لئے کہ اس میں تملیک کی شرط مفقود ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جنایات کے دم کی قضاء کب کریں؟ سوال نمبر ٣٤٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان اکرام مسلئہ ذیل کے بارے میں  کہ اگر کوئی شخص دم ادا نہیں کیا تو وہ شخص دوسرے سال حج کے موقع میں دم قضاء کرسکتے ہیں یا نہیں مع مدلل بیان کریں۔ شکریہ ہو گا

سائل۔ عرفان۔ بنگلہ دیش


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


دم جنایت کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے جس وقت چاہے دم دے سکتا ہے ہاں حدود حرم میں دم ذبح کرنا ضروری ہے اگر حدود حرم کے باہر ذبح کیا تو کفارہ اداء نہیں ہوگا اسی طرح دم کی ادائے گی کے لیے حات احرام میں ہونا بھی شرط نہیں ہے ، احرام سے نکلنے کے بعد بھی دم دیا جاسکتا ہے۔


فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: اگر ایسی جنایت ہوئی ہو جس سے دم لازم آتا ہوتو خود جاکر دم دینا ضروری نہیں ہے کسی کے ذریعہ بھی دم دلواسکتا ہے اور اس دم جنایت کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے جس وقت چاہے دم دے سکتا ہے ہاں حدود حرم میں دم ذبح کرنا ضروری ہے ۔فقط واﷲاعلم بالصواب۔ (فتاوی رحیمیہ رحیمیہ ٨/١٠٧)


فتاوی شامی میں ہے

(قولہ الواجب دم) (تنبیہ)فی شرح النقایة للقاری: ثم الکفارات کلہا واجبة علی التراخی، فیکون موٴدیا فی أی وقت۔ ( رد المحتار مع الدر المختار : ۵٤۳/۲، باب الجنایات فی الحرم ، ط: دار الفکر، بیروت )


غنیة الناسک میں ہے

والثامن ذبحہ فی الحرم، فلو ذبح فی غیرہ لا یجزئہ عن الذبح (غنیة الناسک ص: ۲٦۲)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

منگل، 14 جون، 2022

استنجاء کرنا کب مستحب اور کب ضروری ہے سوال نمبر ٣٣٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

استنجاء کرنا کب سنت ہے اگر نجاست سبیلین سے تجاوز نہ کرے تو کیا بغیر استنجاء کے نماز ہو جائے گی یا ڈھیلا استعمال کرنا ضروری ہوگا۔

سائل: ابو الحارث اتراکھنڈ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قضاء حاجت کے بعد پاخانہ یا پیشاب اپنے مقام سے بڑھ کر ادھر ادھر نہ لگا ہو تو مخرج کو پاک کرناسنت مؤکدہ ہے اور بعض نے مستحب لکھا ہے خواہ پانی سے ہو یا ڈھیلے وغیرہ سے اور ایسی صورت میں جب کہ نجاست اپنے مقعد ہی میں ہو اور بغیر استنجاء کے نماز پڑھ لی تو نماز درست ہوجائے گی اور اگر نجاست مقعد سے متجاوز کرجائے تو تو پانی سے پاک کرنا ضروری ہے


فتاوی ہندیہ میں ہے

ﺛﻢ اﻻﺳﺘﻨﺠﺎء ﺑﺎﻷﺣﺠﺎﺭ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺠﻮﺯ ﺇﺫا اﻗﺘﺼﺮﺕ اﻟﻨﺠﺎﺳﺔ ﻋﻠﻰ ﻣﻮﺿﻊ اﻟﺤﺪﺙ ﻓﺄﻣﺎ ﺇﺫا ﺗﻌﺪﺕ ﻣﻮﺿﻌﻬﺎ ﺑﺄﻥ ﺟﺎﻭﺯﺕ اﻟﺸﺮﺝ ﺃﺟﻤﻌﻮا ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻣﺎ ﺟﺎﻭﺯ ﻣﻮﺿﻊ اﻟﺸﺮﺝ ﻣﻦ اﻟﻨﺠﺎﺳﺔ ﺇﺫا ﻛﺎﻧﺖ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﻗﺪﺭ اﻟﺪﺭﻫﻢ ﻳﻔﺘﺮﺽ ﻏﺴﻠﻬﺎ ﺑﺎﻟﻤﺎء ﻭﻻ ﻳﻜﻔﻴﻬﺎ اﻹﺯاﻟﺔ ﺑﺎﻷﺣﺠﺎﺭ ﻭﻛﺬﻟﻚ ﺇﺫا ﺃﺻﺎﺏ ﻃﺮﻑ اﻹﺣﻠﻴﻞ ﻣﻦ اﻟﺒﻮﻝ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﻗﺪﺭ اﻟﺪﺭﻫﻢ ﻳﺠﺐ ﻏﺴﻠﻪ (فتاوی عالمگیری ١/٤٨)۔


طحطاوی علی مراقی الفلاح 

وصفة (الاستنجاء) ليس إلا قسماً واحداً وهو أنه (سنة) مؤكدة للرجال ، والنساء لمواظبة النبي صلی اللہ علیہ وسلم عليه ، ولم يكن واجباً لتركه عليه السلام له في بعض الأوقات ، وقال عليه السلام : ( من استجمر فليتوتر ومن فعل هذا فقد أحسن ومن لا فلا حرج ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ما لم يتجاوز المخرج) قيد لتسميته استنجاء ولكونه مسنوناً (وإن تجاوز) المخرج ( وكان ) المتجاوز ( قدر الدرهم ) لا يسمى استنجاء و ( وجب إزالته بالماء ) أو المائع لأنه من باب إزالة النجاسة ، فلا يكفي الحجر بمسحه (وإن زاد) المتجاوز (على) قدر (الدرهم) المثقالي وهو عشرون قيراطاً في المتجسدة ، أو على قدره مساحة في المائعة (افترض غسله) بالماء أو المائع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ما لم يتجاوز المخرج) يعني به المخرج ، وما حوله من الشرج ذكره ابن أميرحاج عن الزاهدي ، والشرج بفتحتين ، ويجمع على أشراج كسبب وأسباب مجمع - حلقة الدبر الذي ينطبق مصباح قوله (وكان المنجاوز قدر الدرهم) أي المتجاوز وحده عندهما وعند محمد يعتبر مع ما في المخرج ، وكذا فيما إزالته فرض، والحاصل أن المخرج له حكم الباطن عندهما يعتبر ما فيه من النجاسة أصلاً ، ولا يضم ، وعند محمد له حكم الظاهر حتى إذا كان ما فيه زائداً على قدر الـدرهـم يمنع، ويضم ما فيه إلى ما في جسده لاتحادهما في الحكم، وبقولهما يؤخذ كما في التبيين ، وصححه في المضمرات ، وذكر ابن أميرحاج عن الاختيار أن الأحوط قول محمد . قوله : ( فلا يكفي الحجر بمسحه ) الأظهر فلا يكفي مسحه بالحجر۔ (طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ٤٣ ٤٤)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا