سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
صورت مسئولہ یہ ھے کہ ایک نئی عیدگاہ بنانے کے لئے کچھ رقم جمع ہوئیں پھر کسی عذر کی بنا پر دوسری جگہ نئی عیدگاہ بنانے کا ارادہ ختم ہوگیا تو کیا نئی عیدگاہ کے لئے جمع شدہ رقم کو مصارف مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ بحوالہ جواب عنایت فرمانے کی زحمت کریں عند اللہ ماجور ہوں گے۔
سائل محمد سیف اللہ سپول
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اوقاف میں یہ ضروری ہے کہ شرعاً وقف شدہ چیز کو وقف کرنے والے کی شرائط کے مطابق استعمال کیا جائے اور اگر کسی وجہ سے وہ اس رقم سے مستغنی ہو تو کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرنے سے پہلے رقم دینے والے صاحب سے اجازت لینا ضروری ہے، اگر وہ اس رقم کو کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرنے کی اجازت دے دیں، تو اسے دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز ہوگا
اور اگر واقفین کا علم نہیں ہے اور عیدگاہ میں اس رقم کو صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور آئندہ بھی ضرورت نہیں ہوگی، تو قریبی عیدگاہ میں وہ رقم صرف کی جائے گی ، اگر قریب میں عیدگاہ نہ ہو، یا اس میں صرف کی ضرورت نہ ہو تو پھر مسجد میں صرف کر دی جائے۔
لیکن پرانی عیدگاہ میں صرف کی ضرورت ہو تو اس میں صرف کرنے سے پہلے مسجد یا کسی اور مصرف میں صرف کرنا درست نہیں ہے اس لئے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک وقف کی زائد رقم کو اُس کی قریبی جنس میں صرف کرنے کی گنجائش ہے ، غیر جنس میں صرف کرنا درست نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر واقعی وہاں نئی عیدگاہ کے بنانی کا ارادہ ہمیشہ کے لئے ملتوی کردیا ہے تو اس کی آمدنی سب سے پہلے پورانی عیدگاہ میں صرف کریں اور اگر وہاں ضرورت نہیں ہے تو مسجد کے مصالح کے لئے استعمال کی گنجائش ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں اس طرح سے وضاحت کی ہے جس سے اس مسئلہ کی طرف رہنمائی ہوتی ہے ملاحظہ فرمائیں۔
مسجد کی زائد آمدنی کا مصرف
ســوال ( ۱۴۸۳ ) اگر کسی مسجد کی جائدادموقوفہ کی آمدنی اس کے مصارف سے بہت بڑھ جاوے کہ سالہا سال بھی اس مسجد میں اس کی ضرورت محتمل نہ ہوتو ایسی صورت میں اس آمدنی کو دوسری مساجد کی تعمیر یا امام ومؤذن کی تنخواہ یا دیگر مصارف خیر میں صرف کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ مشرح و مدلل ارشاد ہو ۔ بینوا توجروا
الجواب : في الدرالمختار . ومثله حشيش المسجد وحصيره مع الاستغناء عنها وكـذا الـربـاط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والحوض إلى أقـرب مـسـجـد أو رباط أو بـئـر أوحـوض إليه الخ . وفي رد المحتار : لف ونشر مرتب فظـاهره أنه لا يجوز صرف وقف مسجد خرب إلى حوض وعكسه وفي شرح الملتقى يـصـرف وقفها لأقرب مجانس لها . اه ج : ۳ ، ص : ۵۷۴ قلت : وهذه الرواية وإن كـانـت مـنـقـولة في صورة خراب المسجد وغيره ؛ لكن ما كان مبنى الحكم الاستغناء كان الحكم عاما وإن لم يخرب و هذا ظاهر عندى۔ (الـدر الـمـختار مع الشامي، كتاب الوقف زكريا ديوبند ٥٤٩/٦ ، کراچی ٤/٣۵٩)
اس سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں اس آمدنی کو دوسری مساجد میں بھی صرف کر سکتے ہیں ؛ لیکن اس ترتیب سے کہ اول اقرب مساجد میں اور اگر اس میں ضرورت نہ ہو تو پھر اسی طرح اقرب فالاقرب میں (امداد الفتاوی قدیم ۵۹۳/۲ جدید ٦/٣٠)
آنلائن دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں بھی اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں اس طرح سے وضاحت کی ہے ملاحظہ فرمائیں۔
عید گاہ کی آمدنی کا مصرف
سوال عیدگاہ اور مدرسہ دو الگ الگ وقف ہیں، لہذاعیدگاہ کی دوکانوں کی آمدنی مدرسہ میں خرچ کرنا درست نہیں ہے ، اگر عیدگاہ میں ابھی ضرورت نہیں ہے ، تو آئندہ کے لیے رقم محفوظ کر لی جائے اور اگر عیدگاہ میں آئندہ بھی رقم صرف کرنے کی ضرورت نہ ہو، تو اس کی وضاحت کر کے دوبارہ سوال کریں ۔ شرط الواقف کنص الشارع أی فی المفہوم والدلالة ووجوب العمل بہ۔ (الدر المختار، کتاب الوقف / مطلب فی قولہم شرط الواقف کنص الشارع، و۶۴۹زکریا، وکذا فی الأشباہ والنظائر، کتاب الوقف / الفن الثانی، الفوائد: ۱۰۶/۲إدارة القرآن کراچی، تنقیح الفتاویٰ الحامدیة ۱۲۶/۱المکتبة المیمنیة مصر)وکذا الرباط والبئر إذا لم ینتفع بہما، فیصرف وقف المسجد والرباط والبئر والحوض إلی أقرب مسجد أو رباط أو بئر أو حوض۔ (الدر المختار) وفی شرح الملتقیٰ: یصرف وقفہا لأقرب مجانس لہا الخ۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب فیما لو خرب المسجد أو غربہ) مستفاد : امداد الفتاوی : ۲/۵۷۶تا ۵۸۲ ) مندرجہ بالا جواب کے پس منظر میں دوبارہ سوال کیا جارہا ہے کہ عیدگاہ میں آئندہ بھی رقم صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، اس لئے دوکانوں کی آمدنی کو اس سے متصل مدرسہ کے مد میں صرف کرنے کی کوئی گنجائش شرعا ہے تو مطلع فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔
جواب
اگر آئندہ بھی رقم صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، تو قریبی عیدگاہ میں رقم صرف کی جائے گی ، اگر قریب میں عیدگاہ نہ ہو، تو پھر مسجد میں صرف کر دی جائے ،دوسری عیدگاہ یا مسجد ہوتے ہوئے مدرسہ میں رقم صرف کرنا جائز نہیں ہے ، اس لے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک وقف کی زائد رقم کو اُس کی قریبی جنس میں صرف کرنے کی گنجائش ہے ، غیر جنس میں صرف کرنا درست نہیں ہے۔
وکذا الرباط والبئر إذا لم ینتفع بہما، فیصرف وقف المسجد والرباط والبئر والحوض إلی أقرب مسجد أو رباط أو بئر أو حوض۔ (الدر المختار) وفی شرح الملتقیٰ: یصرف وقفہا لأقرب مجانس لہا الخ۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب فیما لو خرب المسجد أو غربہ )مستفاد : امداد الفتاوی : ۵۷۶/۲تا ۵۸۲ )۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١۵٣٦٠٣)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے۔
ذهب الفقهاء الى أنه لو تعطلت الجهة الموقوف عليها فان ريع الوقف يصرف إلى جهة أخـرى مـماثلة للجهة التـي تـعـطـلت منافعها ولم يرج عودها . فلو كان هناك وقف على مسجد أو رباط أوحوض فخرب المسجد أو الرباط أو الحوض وأصبح لا ينتفع بها ، فإن ما وقف عـلـى الـمـسـجـد يـصرف على مسجد آخر ولا يصرف إلى حوض أو بئر أو رباط ، وما وقف على الحوض أو البئر أو الرباط يصرف وقفها لأقرب مجانس لها . (الموسوعة الفقهية الكويتية ٤٤/١٦١ )
الأشباہ والنظائر میں ہے۔
شرط الواقف کنص الشارع أي في وجوب العمل بہ، وفي المفہوم والدلالۃ۔ (الأشباہ والنظائر کتاب الوقف من الفن الثاني، ٢/١٠٦ ط: إدارۃ القرآن کراتشی)
شامی میں ہے۔
وکذا الرباط والبئر إذا لم ینتفع بہما، فیصرف وقف المسجد والرباط والبئر والحوض إلی أقرب مسجد أو رباط أو بئر أو حوض ۔۔۔۔۔ وفی شرح الملتقیٰ: یصرف وقفہا لأقرب مجانس لہا الخ۔ (رد المحتار، ٦/٤٤٩ کتاب الوقف / مطلب فیما لو خرب المسجد أو غربہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں