سوال
الســـلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
فدیہ کا پیسہ کہاں کہاں دینا چاہیے۔۔ کیا مسجد میں دے سکتے ہیں اگر کسی چیز کے لیے جمع کیا جا رہا ہو تو جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائے
سائل: محمد ارمان الہ آبادی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
فدیہ کسی بھی چیز کا ہو چاہے روزہ کا ہو یا نماز کا، اس کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے کیوں کہ وہ صدقاتِ واجبہ میں سے ہے اور صدقات واجبہ (مثلاً: مد زکوۃ، نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) کے ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مسلمان مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے اس لیے مساجد کی تعمیر وغیرہ پر زکات اور صدقات واجبہ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی، کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔
مستحقِ زکاۃ سے مراد ہر وہ مسلمان ہے جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن، کپڑے وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر یعنی
(١) سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
(٢) چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
(٣) روپیہ، پیسہ، جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو.
(٤) مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو) مال یا سامان موجود نہ ہو اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے، اور انہی کو فدیہ کا پیسہ دے سکتے ہیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
ومصرف ھذہ الصدقۃ ما ھو مصرف الزکاۃ۔ (فتاویٰ ہندیہ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر،جلد ١/١٩٤ مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
فتاوی شامی میں ہے
ومصرف الزکوٰۃ ہو فقیر وتحتہ فی الشامیۃ: وہو مصرف أیضا لصدقۃ الفطر والکفارۃ والنذر وغیرہ ذلک من الصدقات الواجبۃ كما في القهستاني۔ (شامی، کتاب الزکاۃ، باب المصرف الزكاة والعشر، زکریا ۳/۲۸۳)
البحر الرائق میں ہے
(قوله فإن لم يستطع الصوم أطعم ستين فقيرا كالفطرة أو قيمته) ....وأشار بذكر الفقير إلى أنه المراد في الآية فالمسكين والفقير سواء فيها وأفاد بقوله كالفطرة أي كصدقة الفطر أنه لا يجوز إطعام أصله وفرعه وأحد الزوجين ومملوكه والهاشمي وأنه يجوز إطعام الذمي؛ لأن مصرفها مصرفها وهو مصرف الزكاة إلا الذمي فإنه مصرف فيما عدا الزكاة....(قوله؛ لأن مصرفها مصرفها) أي: مصرف الكفارة مصرف الفطرة وهو أي مصرف الفطرة مصرف الزكاة۔ (البحر الرائق ٤/١١٦ ط دارالکتاب الاسلامی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں