بدھ، 15 جون، 2022

مدرسہ میں زکوۃ کی رقم سے اساتذہ کے لئے سامان خریدکر رکھنا سوال نمبر ٣٤١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیسے ہیں مفتی صاحب مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ جیسے مدارس میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاتی ہے عام طور پر تو اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی رقم سے اساتذہ یا مہمانوں کے لیے کھانے رکھنے کا سامان جیسے ہاٹ پاٹ پلیٹ وغیرہ وغیرہ لے آۓ تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں مفتی صاحب

سائل: فضل الرحمن بلگرام ہردوئی یوپی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے مصارف فقراء ومساکین وغیرہ ہیں جن پر تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے، نیز حسبِ تصریح فقہائے حنفیہ اموالِ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے یعنی اس مال کو کسی اہل مصرفِ زکوٰۃ کی ملکیت میں بحیثیتِ تملیک کہ دینا ضروری ہے۔

 

صاحب بدائع نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایاہے کہ، اللہ تعالیٰ نے آتواالزکوٰۃ کا حکم فرمایا، اور ایتاء میں  تملیک کے معنیٰ پائے جاتے ہیں، اور اسی وجہ سے اللہ نے زکوٰۃ کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے اور تصدق میں تملیک ہے۔ وقد أمراللہ تعالی الملاک بإیتاء الزکوٰۃ لقولہ عزوجل وآتواالزکوٰۃ والایتاء ھو التملیک ولذاسمیٰ اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ عزوجل إنما الصدقات للفقرآء والتصدق تملیک (بدائع ۲/ ۴۵۶)

اور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جہاں لام کی إضافت ملاک کی طرف ہو تو وہ ملکیت کے لئے خاص ہوجاتا ہے۔ أما النص فقولہ تعالیٰ إنما الصدقات للفقرآء وقولہ عزوجل فی أموالھم حق معلوم للسائل والمحروم والإضافہ بحرف اللام تقتضی الإختصاص بجھۃ الملک إذا کان المضاف إلیہ من أھل الملک۔ دوسری جگہ إرشاد ہے کہ زکوٰۃ فقیر کو مالک بنانے سے ہی ادا ہوگی۔ فإن الزکاۃ تملیک المال من الفقیر۔ (۲/۲۸۰ بدائع)

صاحب ہدایہ نے ہدایہ میں زکوٰۃ کے مال کومسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیں کہ لإنعدام الملک وھوالرکن۔ (ہدایہ جلد۱/ ۲۲۲)

صاحب فتح القدیر نے بھی صدقہ کی حقیقت کو تملیک سے تعبیر کیاہے۔ لإنعدام التملیک وھوالرکن: فإن اللہ تعالیٰ سماھا صدقۃ،وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال من الفقیر (فتح القدیر۲/۲۷۲)

صاحب بنایہ نے بھی زکوٰۃ میں تملیک کو جزو لاینفک کا درجہ دیاہے۔ لأن الرکن فی الزکوٰۃ التملیک من الفقیر۔ (البنایہ ۳/ ۴۶۲)

صاحب بحر نے بھی البحر الرائق میں زکوٰۃ کے مال کو مسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہوئے لکھا ہے ہیں کہ۔ وعدم الجواز لإنعدام التملیک الذی ھو الرکن۔ (البحرالرئق۲/۲۷۲)

شامی میں رفاہی افعال میں خرچ کے عدم جواز کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی وجہ عدم تملیک کو قرار دیتے ہوے رقم طراز ہیں۔ ویشترط أن یکون الصرف (تملیکاً) … وکل مالا تملیک فیہ۔ (شامی ۳/ ۲۹١)

الخلاصۃ الفقہیہ میں بھی تملیک کو اصل کا درجہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ، زکوٰۃ بلا تملیک مال درست نہیں ہے، پھر ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہر ایسی عبادت جو تملیک سے خالی ہو وہاں زکوۃ دینادرست نہیں ہے۔ والأصل فیہ أن الواجب فیہ فعل الإیتاء فی جزء من المال، ولا یحصل الإیتاء إلا بالتملیک، فکل قربۃ خلت عن التملیک لایجزیٔ عن الزکوٰۃ۔ (الخلاصۃ الفقہیہ ۱ ص۴۵۳)   


صورت مسئولہ میں زکوٰۃ کی رقم سے اساتذہ یا مہمانوں کے لیے کھانے رکھنے کا سامان لاکر رکھنا درست  نہیں ہے اس لئے کہ اس میں تملیک کی شرط مفقود ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: