پیر، 6 جون، 2022

قرآن خوانی کرانا کیسا ہے سوال نمبر ٣٣٣

 سوال

اسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا قرآن خوانی کرانا بدعت ہے؟ کسی کے انتقال پر اکثر قرآن خوانی کی جاتی ہے کیا یہ کرنا غلط ہے ؟ رہنمائی فرمادیں۔

سائل محمد عبداللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اللہ تعالی کی رضاء وخوشنودی کے لئے قرآن کریم کی تلاوت کرنا باعث اجر وثواب ہے احادیث میں اس کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے اور شریعت میں تلاوت کرنے کے بعد ایصال ثواب کرنا بھی  مستحب ہے، لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے تلاوت قرآن یا کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے۔


البتہ اجتماعی قرآن خوانی کا مروجہ طریقہ کہ کسی کے مرنے کے بعد کسی دن کی تخصیص کے ساتھ بغرض ایصال ثواب جو قرآن خوانی ہوتی ہے وہ بدعت ہے اور وہ بہت ساری خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے لائق ترک ہے کیونکہ شریعت نے ایصال ثواب کے لیے کوئی دن جگہ یا وقت متعین نہیں کیا ہے، لہذا مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے عزیز و اقارب کا نفسِ قرآن کریم پڑھنا اور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے۔


لیکن مروجہ طریقہ پر دن متعین کرکے اجتماعی طور پرتعزیت کے لیے جمع ہونا اور اجتماعی قرآن خوانی کرنا جس میں میت کے یہاں کھانے پینے کا التزام ہو اور لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کرنا، نہ آنے والوں سے ناراضی کا اظہار کرنا  اور ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور ناجائز وممنوع ہے اور جو قرآن خوانی دن یا وقت کی تخصیص اور اجرت اور شائبہ اجرت وغیرہ منکرات شرعیہ سے خالی ہو وہ ہرگز بدعت یا ناجائز نہیں بلکہ جائز ہے۔


لہذا ایصال ثواب کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ انفرادی طور پر حسب موقع نوافل ،تلاوت قرآن اورنقد صدقات خیرات کرکے میت کو ثواب پہونچا دیا کریں یا دیگر کارخیر کے ذریعہ ثواب پہنچا دیا کریں اور بخشش کی دعاء کی جائے


مشکاة المصابیح میں ہے۔

عن عائشة رضي اللہ عنھا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد متفق علیہ، وعن جابر رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أما بعد فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعة ضلالة رواہ مسلم (مشکاة المصابیح ،کتاب الإیمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، الفصل الأول، ص ۲۷،ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ۔


مرقاة المفاتیح  میں ہے:

قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟ (٣/٣١  کتاب الصلاة،  الفصل الأول، ط: رشیدیة)


شامی میں ہے۔

فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٩/٧٧ ط: زکریا)۔


الموافقات ہے۔

قال حذیفة رضي اللہ عنہ: کل عادة لم یتعبدھا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا فإن الأول لم یدع للآخر مقالاً فاتقوا اللہ یا معشر القراء وخذوا بطریق من کان قبلکم ونحوہ لابن مسعود أیضا (الموافقات، ۳: ۵۳)


شامی میں ہے۔

عن العیني فی شرح الہدایة: فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراءة وإعطاء الثوب للآمر والقراءة لأجل المال فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر؟ ولو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزکان؛ بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون (رد المحتار، کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ۹:۷۷ط: مکتبہ زکریا دیوبند)


فتاوی شامی میں ہے

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع۔ (فتاوی شامی ٣/١٤٨)


الاعتصام للشاطبی میں ہے:

ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته".

( الاعتصام للشاطبي  الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ١/٥٣ ط: دار ابن عفان، السعودية)

ایضاً

إذا ثبت هذا ؛ فالدخول في عمل على نية الالتزام له ، إذا ثبت هذا ، فالدخول في عمل على نية الالتزام له إن كان في المعتاد ، بحيث إذا داوم عليه ؛ أورث مللا ، ينبغي أن يعتقد أن هذا الالتزام مكروه ابتداء ، إذ هو مؤد إلى أمور جميعها منهي عنه :

ایضاً

وإذا التزم الإنسان أمرا من الأمور المندوبة أو أمرين أو ثلاثة ؛ فقد يصده ذلك عن القيام بغيرها ، أو عن كماله على وجهه ، فيكون ملوما۔ ( الاعتصام للشاطبي  الباب الخامس في أحكام البدع الحقيقية والإضافية والفرق بينهما۔ فصل الدخول في عمل على نية الالتزام له ١/٣٨٩ ط: دار ابن عفان، السعودية) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: