سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مسٸلہ یہ ہے مفتی صاحب : کہ جانور کو اس طریقہ سے ذبح کیاجاتاہے کہ مشین چلاٸی جاتی ہے گردن پر اور اس مشین پر بسم اللہ لکھی ہوٸی ہے ۔اور زبان سے بسم اللہ نھیں پڑھتے ہیں۔ توکیاجانور حلال ہوگا؟ اور ذبح اختیاری وذبح اضطراری کسے کہتے ہیں اس کی بھی وضاحت فرمائیں؟
سائل محمد شعبان مکن پور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
ذبح کے معنی لغت میں قطع الاوداج (یعنی گردن کی شہ رگ کے کاٹنے کے ہیں ) اور اصطلاحِ شرع میں ذبح کے معنی جانور کے حلقوم اور شہ رگ کو ایک ساتھ بسم اللہ پڑھ کر کاٹ دینے کے ہیں۔ ذبح کی دو قسمیں ہے ایک ذبح اختیاری دوسرے نمبر پر ذبح اضطراری
ذبح اختیاری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جانور کو آسانی کے ساتھ لٹا کر اس کے گلے پر بسم اللہ پڑھ کر چھری چلا دی جائے، اور اس کے حلقوم اور ودجان یعنی دونوں شہ رگ کٹ جائیں ، یا اونٹ وغیرہ کو کھڑے کھڑے نحر کردیا جائے، اور نحر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اونٹوں کی تمام رگوں کا تعلق گردن کی ایک جگہ پر ہوتا ہے، اور کھڑے کھڑے اس جگہ پر چھری پھیر دی جائے یہ ذبح اختیاری کے دائرے میں داخل ہے۔
وہی اختیاریۃ و اضطراریۃ: فالأول الجرح فیما بین اللبۃ واللحیین۔ (البحر الرائق کراچی ۸/۱۶۷، زکریا ۸/۳۰۵)
ذبح اضطراری کا مطلب یہ ہے کہ جب ذبح اختیاری پر قدرت نہ ہو، اور کسی طرح اس پر کامیابی نہ ہوسکے تو جانور کے بدن کے کسی بھی حصہ میں ایسا زخم کردیا جائے جس سے خون جاری ہو جائے، اور ذبح اختیاری پر قدرت ہوتے ہوئے ذبح اضطراری کو اختیار کرے گا تو شرعی طور پر ذبح درست نہ ہوگا، اور جانور بھی حلال نہ ہوگا، اس کو حضرات فقہاء نے ان الفاظ سے نقل فرمایا ہے:
الثانی الجرح في أي موضع کان من البدن وہذا کالبدل عن الأول لأنہ لایصار إلیہ إلا عند العجز عن الأول۔ (البحر الرائق زکریا ۸/۳۰۶، کوئٹہ ۸/۱۶۷)۔ (مستفاد فتاوی قاسمیہ ٢٢/١٤٠)
مشینی ذبیحہ ذبح اختیاری میں داخل ہے اور ذبح احتیاری میں شرعاً ضروری ہے کہ ذابح ذبح کرتے وقت (چھری چلاتے وقت) بسم اللہ خود جانور پر پڑھے اور ذبح کرتے وقت زور سے بسم اللہ پڑھنا بھی شرط نہیں ہے بلکہ آہستہ بھی پڑھ لینا کافی ہے، اگر ذبح کرتے وقت یاد ہونے کے باوجود جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا تو اس صورت میں جانور حلال نہیں ہوگا اور اس کا کھانا حرام ہوگا لیکن اگر کبھی ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا یاد ہی نہ رہا اور بھولے سے اللہ کے نام کے بغیر ذبح کر دیا تو پھر جانور حرام نہ ہوگا اور صورتِ مسئولہ میں مشین پر پر بسم اللہ لکھی ہوٸی ہونا کافی نہیں ہے ہر جانور کے ذبح کے وقت زبان سے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہیں اس لیے مشینی ذبیحہ کی یہ صورت شرعاً جائز نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے
(و) ذكاة (الاختيار) (ذبح بين الحلق واللبة) بالفتح: المنحر من الصدر (وعروقه الحلقوم) كله وسطه أو أعلاه أو أسفله: وهو مجرى النفس على الصحيح (والمريء) هو مجرى الطعام والشراب (والودجان) مجرى الدم (وحل) المذبوح (بقطع أي ثلاث منها) إذ للأكثر حكم الكل وهل يكفي قطع أكثر كل منها خلاف وصحح البزازي قطع كل حلقوم ومريء وأكثر ودج وسيجيء أنه يكفي من الحياة قدر ما يبقى في المذبوح۔ (فتاوی شامی ٩/٤٢٤)
فتاوی شامی میں ہے
ولا تحل ذبیحة من تعمّد ترک التسمیة مسلما أو کتابیاً لنصّ القرآن ولانعقاد الإجماع ممّن قبل الشافعي علی ذلک۔ (ردالمحتار: ۹/٤۳۳، ط: زکریا)
فتاوی عالمگیری میں ہے
وأما الشرط الذی یرجع إلی محل الذکاة: (فمنہا) تعیین المحل بالتسمیة فی الذکاة الاختیاریة، وعلی ہذا یخرج ما إذا ذبح وسمی، ثم ذبح أخری یظن أن التسمیة الأولی تجزء عنہما لم تؤکل فلا بد أن یجدد لکل ذبیحة تسمیة علی حدة․ (فتاوی ہندیة: ۵/۲۸۸، ط: زکریا دیوبند)
بحوث في قضايا فقهية معاصرة۔
أما الشروط التي ذكرها الفقهاء للذكاة الشرعية، فإنها ترجع إلى ثلاثة عناصر، الأول: طريق إزهاق الروح، والثاني: ذكر اسم الله، والثالث: أهلية الذابح۔ (بحوث في قضايا فقهية معاصرة ٣٨٩)
فتاوی عالمگیری میں ہے
ومن شرائط التسمية أن تكون التسمية من الذابح حتى لو سمى غيره والذابح ساكت وهو ذاكر غير ناس لا يحل. (ومنها) أن يريد بها التسمية على الذبيحة، فإن أراد بها التسمية لافتتاح العمل لا يحل۔ (الفتاوى الهندية ۵/٢٨٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں