اتوار، 5 جون، 2022

سرکاری کاغذات کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے طلاق کا حکم سوال نمبر ٣٣٢

 سوال

السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب  خیریت سے ھے ایک مسئلہ ہے ایک صاحب نے بیوی کو سرکاری کاغذات کے ذریعہ طلاق دی ہے اسکا کہنا ہے کہ اس نے دستخط کی ھے مگر الفاظ استعمال نہیں کئے تو اس طلاق کا کیا حکم ھے؟ اگر طلاق ھوتو پھر دوبارہ نکاح کا کیا طریقہ رہیگا؟ رہبری فرماکر عنداللہ ماجور ھو

سائل مولانا عمر غریبا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زبان سے طلاق کا لفظ بولنے سے جیسے طلاق واقع ہوتی ہے اسے ہی تحریر سے یا لکھے ہوئے اور طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ زبان سے تلفظ کیا ہو یا نہ کیا ہو اور بیوی حاضر ہو یا نہ ہو۔


اگر اپنی بیوی کو ایک یا دو صریح طلاقیں دی ہیں یا دستخط کی ہے اور ابھی تک بیوی کی عدت نہیں گزری ہے تو عدت میں بیوی سےرجوع کرنا جائز ہے اور اگر عدت گزرگئی ہے اور شوہر نے ایک یا دو طلاق ہی دی ہے تیسری طلاق نہیں دی ہے تو اس کا اپنی بیوی سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں  دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے اور آئندہ شوہر کو اگر ایک طلاق دی ہے تو دو کا اور اگر دو دی ہے تو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا، اور اگر اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو ایسی صورت میں اس کا اپنی سابقہ بیوی سے حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں۔


المحیط البرہانی میں ہے 

فالمرسومة أن تكتب على صحيفة مصدراً ومعنوناً وإنها على وجهين: الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال.وإن قال: لم أعنِ به الطلاق لم يصدق في الحكم، وهذا لأن الكتابة المرسومة بمنزلة المقال۔ (كتاب الطلاق الفصل السادس: في إيقاع الطلاق بالكتابات ٣/٢٧٦ ط: دارالكتب العلمية)


فتاوی ھندیۃ میں ہے

الکتابۃ علی نوعین: مرسومۃ، وغیر مرسومۃ وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب:أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة۔ وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب:إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق فما لم يجئ إليها الكتاب لا يقع كذا في فتاوى قاضي خان۔ (فتاوی عالمگیری ١/٣٧٨ دار الفکر، بیروت)


فتاوی ہندیہ میں ہے۔

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية۔ (فتاوی عالمگیری کتاب الطلاق ،الباب السادس فی الرجعۃ، ١/٤٧٣ ط:دار الفکر)


قرآن کریم میں ہے

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ....الخ (القرآن الکریم سورة البقرة، الایۃ:٢٢٩)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض " لقوله تعالى: فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها (الھدایۃ ٢/٢۵٤ ط: دار احیاء التراث العربی)


فتاوی عالمگیری میں ہے

إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها.الھندیۃ: (١/٣٧٣ ط: دار الفکر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: