سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ اگر امام صاحب پہلے قاعدے میں بیٹھے ہوں اور کوئ مقتدی آکر امام کے ساتھ شریک ہونے لگے مگر ابھی مقتدی سکون سے بیٹھا نہ ہو بیٹھنے کے قریب ہو کہ امام صاحب تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہو گئے یا آخری رکعت تھی کہ امام صاحب نے سلام پھیر دیا تو کیا ان صورتوں میں مقتدی پر تشہد کا پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
سائل: محمد رضوان جمالپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مقتدی کے لیے نماز کے افعال میں امام کی اتباع کرنا لازم ہے مقتدی نماز کے افعال کو امام کے ساتھ ساتھ ادا کرے یا پھر امام کے اس رکن کو ادا کرنے کے متصل بعد ادا کرے لیکن اگر کسی واجب کی ادائیگی میں مقتدی مصروف ہو اور امام دوسرے رکن یا واجب کی طرف منتقل ہو جائے یا سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں مقتدی اپنے واجب کو ادا کر کے امام کی اتباع کرے بشرطیکہ کسی رکن میں امامکی اقتدی کے فوت ہونے کا خوف نہ ہو ۔
یہی حکم تشہد کا بھی ہے کہ امام مقتدی کے تشہد مکمل کرنے سے پہلے کھڑا ہو جائے تو مقتدی کو چاہیے کہ وہ پہلے تشہد مکمل کرے اس کے بعد کھڑا ہو، تشہد مکمل کئے بغیر کھڑا نہیں ہونا چاہئے اسی طرح مقتدی نے تشہد مکمل نہیں کیا اور امام نے سلام پھیر دیا تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا تشہد مکمل کرکے سلام پھیرے اس لئے کہ تشہد واجب ہے اور واجب چھوٹنے کی وجہ سے نماز مکروہ تحریمی کے ساتھ ادا ہوتی ہے، البتہ چونکہ وہ امام کی اقتداء میں ہے اور مقتدی پر کسی واجب کے چھوٹنے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا اس لئے سجدہ سہو لازم نہیں آئے گا۔
البتہ درود شریف اور دعا چھوڑدے کیونکہ یہ مسنون ہیں ان کے چھوٹ جانے سے نماز ادا ہو جاتی ہے البتہ چونکہ تشہد واجب ہے، لہذا اس کو ادا کرنے کے لیے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے اور آخری رکعت کےسلام میں یا مابقیہ رکعات کی ادائیگی میں تاخیر کی گنجائش ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
إذا أدرك الإمام في التشهد وقام الإمام قبل أن يتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاة قبل أن يتم المقتدي التشهد فالمختار أن يتم التشهد. كذا في الغياثية وإن لم يتم أجزأه۔ (الفتاوى الهندية ١/٩٠)
فتاوی شامی میں ہے
(قوله: بخلاف التشهد) أي فإن الإمام لو سلم أو قام للثالثة قبل إتمام المؤتم التشهد فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه كما قدمه في فصل الشروع في الصلاة (قوله لأن المخالفة إلخ) هذا التعليل عليل لاقتضائه فرضية المتابعة المذكورة وقدمنا عن شرح المنية أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة ما لم يعارضها واجب، فلا يفوته بل يأتي به ثم يتابعه، بخلاف ما إذا عارضها سنة لأن ترك السنة أولى من تأخير الواجب، وهذا موافق لما قدمناه آنفا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٤٤٨)
فتاوی شامی میں ہے
والحاصل أن المتابعة في ذاتہا ثلاثة أنواع مقارنة لفعل الإمام ․․․معاقبة للابتداء فعل إمامہ مع المشارکة في باقیہ، ومتراخیة عنہ، لمطلق المتابعة الشامل لہذہ الأنواع الثلاثة یکون فرضًا في الفرض وواجبًا في الواجب وسنة في السنة الخ۔ ( رد المحتار : ۲/١٦٦ ط: زکریا)
فتاوی شامی میں ہے
(بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد)؛ فإنه لايتابعه، بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعية التشهد تابعه؛ لأنه سنة والناس عنه غافلون.
(قوله فإنه لايتابعه إلخ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية، وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير، فحين قعد قام إمامه أو سلم، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحاً، ثم رأيته في الذخيرة ناقلاً عن أبي الليث: المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه اه ولله الحمد۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٢٠٠)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں