سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
وَقَالَ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ رَبَّنَاۤ أَرِنَا ٱلَّذَیۡنِ أَضَلَّانَا مِنَ ٱلۡجِنِّ وَٱلۡإِنسِ نَجۡعَلۡهُمَا تَحۡتَ أَقۡدَامِنَا لِیَكُونَا مِنَ ٱلۡأَسۡفَلِینَ
مغرب کی پہلی رکعت میں اسفلین کی جگہ امام صاحب نے صالحین پڑھ دیا اور پھر اس کا اعادہ بھی نہیں کیا بلکہ دوسری رکعت میں اس کی اصلاح کی تو اس صورت میں نماز کا کیا حکم ہوگا ؟ جب کہ پہلی رکعت میں اصلاح نہیں کی گئی تھی۔
سائل: عبداللہ ناسک
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قرأت میں لفظ اس طرح سے بدل جائے کہ جس سے ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر ایسا معنی پیدا نہ ہو جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔
لہذا تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ کو دیکھا جائے گا اگر معنی تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور اگر تغیر فاحش ہو تو نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
صورت مسئولہ میں چونکہ معنی میں تغیر فاحش ہے اس لئے نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
عالمگیری میں ہے۔
ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ:وعداً علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة۔ (الفتاوی الهندیة، ١/٨٠ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
إمداد المفتین میں ہے۔
قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں