بدھ، 15 جون، 2022

جنایات کے دم کی قضاء کب کریں؟ سوال نمبر ٣٤٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان اکرام مسلئہ ذیل کے بارے میں  کہ اگر کوئی شخص دم ادا نہیں کیا تو وہ شخص دوسرے سال حج کے موقع میں دم قضاء کرسکتے ہیں یا نہیں مع مدلل بیان کریں۔ شکریہ ہو گا

سائل۔ عرفان۔ بنگلہ دیش


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


دم جنایت کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے جس وقت چاہے دم دے سکتا ہے ہاں حدود حرم میں دم ذبح کرنا ضروری ہے اگر حدود حرم کے باہر ذبح کیا تو کفارہ اداء نہیں ہوگا اسی طرح دم کی ادائے گی کے لیے حات احرام میں ہونا بھی شرط نہیں ہے ، احرام سے نکلنے کے بعد بھی دم دیا جاسکتا ہے۔


فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: اگر ایسی جنایت ہوئی ہو جس سے دم لازم آتا ہوتو خود جاکر دم دینا ضروری نہیں ہے کسی کے ذریعہ بھی دم دلواسکتا ہے اور اس دم جنایت کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے جس وقت چاہے دم دے سکتا ہے ہاں حدود حرم میں دم ذبح کرنا ضروری ہے ۔فقط واﷲاعلم بالصواب۔ (فتاوی رحیمیہ رحیمیہ ٨/١٠٧)


فتاوی شامی میں ہے

(قولہ الواجب دم) (تنبیہ)فی شرح النقایة للقاری: ثم الکفارات کلہا واجبة علی التراخی، فیکون موٴدیا فی أی وقت۔ ( رد المحتار مع الدر المختار : ۵٤۳/۲، باب الجنایات فی الحرم ، ط: دار الفکر، بیروت )


غنیة الناسک میں ہے

والثامن ذبحہ فی الحرم، فلو ذبح فی غیرہ لا یجزئہ عن الذبح (غنیة الناسک ص: ۲٦۲)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: