جمعرات، 16 جون، 2022

عقد نکاح میں بطور گواہ صرف عورتیں ہو تو کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٤٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

اگر چار عورتوں کی موجودگی میں ان کی گواہی کے ساتھ نکاح کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے چار عورتوں کی گواہی معتبر ہوگی یا نہیں جبکہ کوئی مرد موجود نہ ہو اور اگر معتبر نہیں ہوگی تو اس کی کیا دلیل ہے؟ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں 

سائل: زبیر ناسک


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح کے صحیح ہونے کے لیے مجلسِ عقد میں کم ازکم بطور گواہ دومسلمان مرد کا موجودرہنا ضروری ہے اور اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو کم سے کم ایک مرد اور دوعورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ایجاب و قبول کے وقت کوئی مرد نہ ہو، صرف عورتیں ہوں تو نکاح صحیح نہ ہوگا لہذا نکاح میں عورتیں گواہ بن سکتی ہیں لیکن خالص عورتیں ہی عورتیں ہو تو کوئی مرد گواہ میں نہ ہو تو ان کی گواہی سے نکاح منعقد نہ ہوگا اس لئے کہ نکاح منعقد ہونے کے لئے شرط ہے کہ ایجاب و قبول دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ہوں گواہ آزاد عاقل و بالغ ہوں اور سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سنے ہوں صرف عورتوں یا خنثی کی گواہی سے نکاح منعقد نہیں ہوسکتا جب تک کے ان کے ساتھ ایک مرد نہ ہو۔


سنن الترمذي میں ہے

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: البغایا اللاتي ینکحن أنفسہن بغیر بینة۔ (سنن الترمذي ۱/۲۱۰رقم: ۱۱۰۹)


فتح القدیر میں ہے

ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین عاقلین بالغین مسلمین الخ، أما اشتراط الشہادة فلقولہ علیہ السلام: لا نکاح إلا بشہود۔ (فتح القدیر / کتاب النکاح ۳/۱۹۹زکریا)


فتاوی ھندیہ میں ہے 

ولا یشترط وصف الذکورۃ حتی ینعقد بحضور رجل وامرأتین کذا فی الھدایۃ ولا ینعقد بشھادۃ المرأتین بغیر رجل و کذا الخنثین اذا لم یکن معھما رجل ھکذا فی فتاویٰ قاضی خان۔ (فتاوی عالمگیری ٢٦٨ ١/٢٦٧ کتاب النکاح الباب الاول فی تفسیرہ شرعا و صفتہ و رکنہ و شرطہ و حکمہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: