اتوار، 12 جون، 2022

عورتوں کا احرام کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٣٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

مفتی صاحب ایک مسئلہ درپیش ہے کہ  اگر کوئی عورت عمرہ کے لئے جارہی ہے تو اس کے لئے  احرام کا کیا حکم ہے؟  اس کا احرام کیا ہوگا؟ کیا وہی کپڑا جو پہنتی ہیں اسی کو احرام سمجھ کر ارکان کی ادائیگی کرے گی یا کچھ احرام کے لئے مخصوص ہے؟

سائل: ضیاء اللہ دیوبند


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عورتوں کے احرام کے لئے کوئی خاص لباس شریعت میں متعین نہیں ہے عورتوں کا احرام یہ ہے کہ وہ اپنے سلے ہوئے کپڑوں میں ہی احرام کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھیں ،پھر عمرہ یا حج کی نیت کریں ،اور آہستہ آواز میں تین بار تلبیہ پڑھیں،ان کو سر ڈھکنا واجب ہے اور ان کے لیے حالتِ احرام میں چہرہ چھپانا ممنوع ہے، البتہ جہاں تک ممکن ہو پردہ ضروری ہے، اس لیے سر پر ہیٹ رکھ کر اوپر سے نقاب ڈال لیں تو زیادہ بہتر ہے ،جس سے پردہ بھی ہو جائےگا اور چہرہ بھی کھلا رہے گا۔ خیال رکھیں کہ نقاب کا کپڑا چہرہ سے نہ لگے البتہ بغیر قصد و ارادہ کے ہوا وغیرہ کی وجہ سے اگر حجاب کا کپڑا کبھی کبھار چہرے سے مس ہوتارہے اور عورت اس کو چہرے سے الگ رکھنے کی کوشش کرتی رہیں، تو کوئی جرمانہ اور فدیہ واجب نہیں ہوگا۔


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: عورتوں کے لیے حالت احرام میں کسی مخصوص کپڑے کی پابندی نہیں، وہ احرام میں سلے ہوئے کپڑے پہن سکتی ہیں، اسی طرح موزے اور دستانے وغیرہ پہن سکتی ہیں، البتہ حالت احرام میں عورت کے لیے چہرہ ڈھانپنا منع ہے، لیکن اجانب سے پردہ بھی ضروری ہے، اور سر کے بالوں کا ڈھکنا بھی ضروری ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ عورت سرپر ہیٹ رکھ کر اوپر سے نقاب ڈال لے تاکہ اجنبی مردوں سے پردہ بھی ہوجائے اور ہیٹ کی وجہ سے نقاب کا کپڑا چہرہ کو نہ لگ پائے اورایک رومال سے سر کے بالوں کو اچھی طرح ڈھک لینا بھی مستحب ہے تاکہ بال ٹوٹنے نہ پائے اور ادھر ادھرمنتشر نہ ہونے پائے، آج کل رواج ہے کہ عورتیں حالت احرام میں اجنبی لوگوں سے چہرے کے پردہ کو ضروری نہیں سمجھتی ہیں، یہ غلط ہے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٤٩١۵۵)


ھدایہ میں ہے

قال والمرأة في جميع ذلك كالرجل لانها مخاطبة كالرجال غيرانها لاتكشف رأسها لان عورة وتكشف وجهها لقوله عليه السلام احرام المرأة في وجهها ولو سدلت شيئا على وجهها وجافته عنه جاز ھکذا روی عن عائشة ولأنه بمنزلة الاستظلال بالمحمل ولاترفع صوتها بالتلبية لما فيه من الفتنة ولاترمل ولاتسعی بين الميلين لانه مخل بستر العورة ولا تحلق ولكن تقصر لماروى ان النبي عليه السلام نھی النساء عن الحلق و امرهن بالتقصير ولان حلق الشعر في حقها مثلة كحلق اللحية في حق الرجال وتلبس من المخيط مابدالهالان في لبس غير المحيط كشف العورة قالوا ولا تستلم الحجراذاكان هناك جمع لانها ممنوعة عن مماسة الرجال الا ان تجدالموضع خالیا (ھدایہ ط رحمانیہ ١/٢٧٧)


اوجز المسالک میں ہے

قال القسطلانی : وللمرأة أن ترخی علی وجھہا ثوبا متجافیا عنہ بخشبة أو نحوھا، فان أصاب الثوب وجہہا بلا اختیار فرفعتہ فورا، فلا فدیة والا وجبت مع الاثم۔ ( اوجز المسالک، انوار مناسک، ص ۱۹۱)


الفقه الإسلامي وأدلتہ میں ہے

وأجاز الشافعية والحنفية ذلك بوجود حاجز عن الوجه فقالوا: للمرأة أن تسدل على وجهها ثوباً متجافياً عنه بخشبة ونحوها، سواء فعلته لحاجة من حر أو برد أو خوف فتنة ونحوها، أو لغير حاجة، فإن وقعت الخشبة فأصاب الثوب وجهها بغير اختيارها ورفعته في الحال، فلا فدية. وإن كان عمداً وقعت بغير اختيارها فاستدامت، لزمتها الفدية۔ (الفقه الإسلامي وأدلته ٣/۵٩٩)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: