سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت معلوم یہ کرنا ہے کہ نماز میں قومہ میں ربنا لک الحمد کے بعد حمدا کثیرا طیبا مبارکا پڑھنا۔ اسی طرح جلسہ میں رب اغفرلی وارحمنی وعافنی پڑھنا کیسا ہے برائے مہربانی یہ بھی بتادیں کہ یہ حدیث سے ثابت ہے یا نہیں اور ان کو پڑھنا سنت ہے یا مستحب ۔امام ان کو پڑھ سکتاہے یا نہیں؟ پوری دعاء با حوالہ لکھیں آپ کا عین کرم ھوگا۔
سائل: ابوالحارث اتراکھنڈ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نماز میں اذکار و دعائیں کرنا امام اور منفرد دونوں کے لئے جائز ہے، یعنی ان دعاؤں کو پڑھنے سے نماز میں کسی طرح کی خرابی نہیں آتی اسی طرح ربنا لک الحمد کے بعد حمدا کثیر طیباً مبارکا فیہ کا اضافہ کرنا مقتدی کے لئے جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے امام کی اتباع میں تاخیر واقع نہ ہوتی ہو۔ البتہ فقہاء احناف نے یہ صراحت فرمائی ہے کہ جماعت کی نماز میں چونکہ ہر طرح کے لوگ شریک رہتے ہیں، اس لئے امام کے لئے اولیٰ یہی ہے کہ وہ قومہ اور جلسہ میں زائد ذکر ودعا نہ کرے؛ کیوںکہ اس کی وجہ سے بعض مقتدیوں کو گرانی ہوسکتی ہے اور احادیث میں مقتدیوں کی رعایت وارد ہوئی ہے۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں نماز کے اندر قومہ وجلسہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ دعائیں پڑھنا بھی ثابت ہے، ’’ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ‘‘ اور جلسہ میں اللہم اغفرلي وارحمني واجبرني واہدني وارزقني‘‘ پڑھا کرتے تھے۔
فتاوی قاسمیہ میں اس طرح کے سوال کے جواب میں حضرت مفتی شبیر احمد صاحب مرادآبادی نے یہ تفصیلی جواب بالدلائل ذکر فرمایا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
احادیث میں رکوع سے کھڑے ہوکر ’’الحمد ﷲ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ‘‘ اور رب اغفرلي وارحمني، واہدني وارزقني وعافني‘‘ پڑھنا وارد ہوا ہے۔ اور فرض نمازوں میں بھی ان دعاؤں کا پڑھنا مستحب ہے۔ اور مذکورہ عبارت : ’’محمول علی النوافل، ومحمول علی التہجد‘‘ علامہ شامی نے خزائن سے نقل کرنے کے بعد آگے خود تحریر فرمایا ہے کہ خزائن کے محشی نے علامہ زیلعیؒ پر رد کیا ہے کہ انہوں نے ان دعاؤں کو تہجد کے ساتھ خاص کیا ہے؛ لہٰذا مذکورہ عبارت سے ان دعاؤں کو نوافل وتہجد کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ، ڈابھیل ۵/ ۶۱۶، کتاب الفتاوی ۳/ ۱۰۸)
عن رفاعۃ بن رافع الذرقي قال: کنا یوما نصلي وراء النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فلما رفع رأسہ من الرکعۃ قال: سمع اللہ لمن حمدہ، قال رجل وراء ہ: ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ، فلما انصرف قال: من المتکلم؟ قال: أنا، قال: رأیت بضعۃ وثلاثین ملکا یبتدرونہا أیہم یکتبہا أول۔ (بخاري، کتاب الأذان، باب فضل اللہم ربنا لک الحمد، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۱۰، رقم: ۷۹۱، ف: ۷۹۹، السنن الکبری للبیہقي، قدیم ۲/ ۸۵، دارالفکر جدید ۲/ ۴۰۱، رقم: ۲۶۰۷)
عن ابن عباس أن النبي ﷺ کان یقول بین السجدتین: اللہم اغفرلي وارحمني واجبرني واہدني وارزقني۔ (ترمذي شریف، أبواب الصلاۃ، باب ما یقول بین السجدتین، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۶۳، دارالسلام، رقم: ۲۸۴)
وما ورد محمول علی النفل (تحتہ في الشامیۃ:) أي تہجدا أو غیرہ۔ (خزائن) وکتب في ہامشہ: فیہ رد علی الزیلعي حیث خصہ بالتہجد۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۲۱۳، کراچی ۱/ ۵۰۵، ۵۰۶)
وقال علی أنہ إن ثبت في المکتوبۃ فلیکن حالۃ الإنفراد أو الجماعۃ، والمأمومون محصورون لا یتثقلون بذلک کما نص علیہ الشافعیۃ، ولا ضرر في التزامہ، وإن لم یصرح بہ مشایخنا، فإن القواعد الشرعیۃ لا تنبوعنہ کیف والصلاۃ والتسبیح والتکبیر والقراء ۃ کما ثبت في السنۃ۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۲۱۳، کراچی ۱/ ۵۰۶)
أقول: بل فیہ إشارۃ إلی أنہ غیر مکروہ إذ لوکان مکروہا لنہي عنہ … وعدم کونہ مسنونا لا ینافی الجواز … بل ینبغي أن یندب الدعاء بالمغفرۃ بین السجدتین۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۲۱۳، منحۃ الخالق علی البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۱/ ۵۶۱، کوئٹہ ۱/ ۳۲۱) فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ (فتاوی قاسمیہ ٥/٧٣٠) واللہ اعلم بالصواب ۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں