سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔۔
کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام مسئلۂ ذیل میں:ایک مدرس کسی کام میں مشغول تھا،اور اس کا وقت مدرسہ میں شروع ہو گیا اب اس کو مدرسہ تک پہنچنے میں ایک دو منٹ تاخیر ہو گئی تو یہ ایک دو منٹ تاخیر کی تنخواہ لینا اس کے لیے جائز ہوگا یا نہیں؟؟؟ بالتفصیل با حوالہ جواب مطلوب ہے ۔۔
سائل۔عبد المتین احمد آبادی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
ادارے میں عام طور پر کسی بھی شعبہ میں خدمت انجام دینے والے کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے اور اجیر خاص تنخواہ میں وقت کے پابند ہوتے ہیں، اجیرِ خاص ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت یعنی تنخواہ کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ ملازمت کے اوقات میں حاضر نہیں رہا یا تاخیر سے آیا تو اس غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تن خواہ کا وہ مستحق نہیں ہوتا۔
لہذا اس معاملہ کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جتنی تاخیر سے آئے اس تاخیر کے بقدر تن خواہ وصول نہ کرے لیکن شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ تنخواہ کے بارے میں باہمی رضامندی سے چھٹی یا تاخیر کی صورت میں جو جائز ضابطہ بناکر آپس میں طے کرلیں اس کی شرعاً بھی اجازت ہوگی۔
اگر ادارے کا یہ ضابطہ ہو کہ ملازم کی کلاس میں تاخیر کی صورت میں تن خواہ نہیں کاٹی جائے گی تو اس ضابطہ کی بناء پر وہ پوری تنخواہ کا مستحق ہوگا اور اگر ضابطہ تنخواہ کاٹنے کا ہو تو تاخیر کی تنخواہ لینا درست نہیں ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے
وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحاً حرم حلالاً أو أحل حراماً، والمسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً۔ (رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله: «شروطهم»۔ (مشکاۃ المصابیح ١٢۵٣ باب الافلاس والانظار، الفصل الثانی، ط: قدیمی)
فتاوی شامی میں ہے
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة۔ ٩/٩٦ کتاب الاجارۃ)
النتف فی الفتاوی للسغدی میں ہے
فان وقعت على عمل معلوم فلاتجب الأجرة إلا بإتمام العمل إذا كان العمل مما لايصلح أوله إلا بآخره وإن كان يصلح أوله دون آخره فتجب الأجرة بمقدار ما عمل وإذا وقعت على وقت معلوم فتجب الأجرة بمضي الوقت إن هو استعمله أو لم يستعمله وبمقدار ما مضى من الوقت تجب الأجرة۔ (النتف في الفتاوى للسغدي ٢/۵۵٩)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں