جمعہ، 24 جون، 2022

گری پری چیز جب اٹھالے تو اس کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٤٧

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب مسٔلہ یہ ہے کہ زید کو پیسے میلے آٹو رکشہ میں سے اور اس کا اعلان کروایا اور اسکے دوسال ہوگیے ابھی تک اس روپیہ کا  کوئی مالک نہیں ملا ہے اب اس روپیہ کا مسٔلہ کیا ہے ؟

سائل: مولانا عنایت اللہ ابن عبد اللہ پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کسی بھی جگہ گری پڑی رقم اور چیز وہ لقطہ کے حکم میں ہوتی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ جس شخص کو ایسی رقم یا چیز ملے تو اس رقم یا چیز کی حتی الوسع تشہیر کریں، یعنی جس جگہ سے رقم ملی ہے وہاں اور اُس سے متعلقہ جگہ مثلاً بازار وغیرہ میں مالک کی تلاش و جستجو میں لگا رہے، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو اپنے پاس محفوظ  رکھے،  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکلی پیش نہ آئے۔ اور  اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو ایسی صورت میں مالک کی طرف سے کسی  فقیر کو صدقہ کردینا جائز ہے، اور اگر خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجائے تو اسے اپنی رقم یا چیز کے مطالبہ کا پورے پورا اختیار حاصل ہوگا چاہے اپنی قیمت کا مطالبہ کرے یا صدقہ کا ثواب لے لے۔


صورت مسئولہ میں ملنے والے پیسے لقطہ کے حکم میں ہے، اور دو سال مکمل اعلان کیا اور مالک کا پتہ نہ چلا تو اگر حفاظت ممکن ہو تو حفاظت کرنا بہتر ہے ورنہ کسی غریب کو صدقہ کردی جائے، اور اگر پانے والا خود مستحق یعنی غیر صاحب نصاب ہو تو وہ خود بھی رکھ سکتا ہے پھر اگر بعد میں مالک مل جائے تو اسے اختیا ر ہو گا کہ اِس صدقہ کو برقرار رکھے یا اِس کا ضمان آپ سے وصول کرے۔


ملتقي الأبحر میں ہے 

وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء وإن كانت حقيرة كالنوى وقشور الرمان والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف وللمالك أخذها ولا يجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة ويحل إن بين علامتها من غير جبر (ملتقي الأبحر  ١/ ٥٢٩-٥٣١)


البحر الرائق میں ہے 

(لقطة الحل والحرم أمانة إن أخذها ليردها على ربها وأشهد)… وعرف إلى أن علم أن ربها لا يطلبها)… ثم تصدق) أي إن لم يجئ صاحبها فله أن يتصدق بها على الفقراء إيصالا للحق إلى المستحق وهو واجب بقدر الإمكان وذلك بإيصال عينها عند الظفر بصاحبها وإيصال العوض وهو الثواب على اعتبار إجازته التصدق بها وسيأتي أن له أن ينتفع بها فعلم أنه مخير بينهما وسكت عن إمساكها وله ذلك رجاء الظفر بصاحبها كما في الهداية۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري  ٥/١٦٣)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين۔۔۔۔ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع علىالملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين۔ (الفتاوی الھندیة کتاب اللقطۃ، ٢/٢٨٩ ط: دار الفکر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

کوئی تبصرے نہیں: