اتوار، 26 جون، 2022

مجبوری میں قبروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٤٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

سڑک کے کنارے قبرستان ہے اور سڑک چوڑی ہورہی ہے

جس کی وجہ سے سرکار کی طرف سے نوٹس جاری ہوے تو اب قبروں کو منتقل کیسے کیا جائے کیا شریعت مطہرہ میں اس کا حکم ہے؟

سائل: ابو حنظلہ ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جب موقوفہ زمین میں میت کو ایک مرتبہ قبر میں دفن کردیا جائے اور مٹی ڈال دیجائے اس کے بعد قبر سے میت کا نکالنا اور اس کو دوسری جگہ منتقل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ عذر شدیدہ کی وجہ سے مثلاً کسی غیر کی زمین میں بلااجازت تدفین کی گئی ہو یاغصب شدہ زمین میں مردہ کو دفنایا گیاہو یا وہ مجبور ہو اس طرح کہ حکومت کی طرف سے روڈ تعمیر میں جبری حکم ہو اور نہ ہٹانے کی صورت میں مردوں کی بے حرمتی کا احتمال ہو تو اس صورت میں اگر قبریں مٹی ہوگی ہوں تو اس قبر کو برابر کردینا یا اگر قبریں مٹی نہ ہوئی ہو تو میت کو منتقل کرنے کی اجازت ہے۔


مسؤلہ صورت میں وہ زمین اگر کسی شخص کی مملوکہ نہیں ہے، بلکہ عام زمین ہے جہاں یہ قبریں موجود ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ ان قبروں کو باقی رکھے تاہم اگر مجبور ہو اور مسمار اور بے حرمتی کئے جانے کا اندیشہ ہو تو ورثاء ان قبروں کو دوسرے جگہ منتقل کرسکتے ہیں۔


فتاوی شامی میں ہے

(ولا يخرج منه) بعد إهالة التراب (إلا) لحق آدمي ك (أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً۔ فتاوی شامی ٣/١٤٥)


فتاوی ہندیہ میں ہے

ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس۔ (فتاوی ہندیہ ٤/٤٨٦)


کبیري میں ہے

وأما بعد الدفن فلا یجوز إخراجہ حتی قالو: لو أن امرأة مات ولدُہا ودفن ببلد غیر بلدہا، وہي لا تصبر، وأرادت نبشَہ ونقلَہ إلے بلدہا لا یباح لہا ذلک، ولا یباح نبشہ بعد الدفن أصلا إلا لما تقدم من سقوط مال فیہ أو کون الأرض في حق الغیر، وحینئذ إن شاء ذلک الغیر أخرجہ، إن شاء سوی القبر وزرع فوقَہ، وجوز البعض النقل بعد الدفن استدلالا بما نقل أن یعقوب -علیہ السلام- بعد ما مضی علیہ زمان نُقِل من مصر إلی الشام لیکون مع آبائہ، والصحیح الأول؛ لأن شرع من قبلنا إذا لم یقص اللہ أو رسولہ علینا من غیر تغییر لا یکون شرعا لنا؛ لا یجوز الاستدلال بہ، وفي القنیة مقابر بلغ إلیہا حطم جیحون لا یجوز نقلہم إلی موضع آخر․ (کبیري، ص: ۶۰۷،ط: در سعادت، ترکی)


البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے

(قوله ولا يخرج من القبر إلا أن تكون الأرض مغصوبة) أي بعد ما أهيل التراب عليه لا يجوز إخراجه لغير ضرورة للنهي الوارد عن نبشه، وصرحوا بحرمته ،وأشار بكون الأرض مغصوبة إلى أنه يجوز نبشه لحق الآدمي كما إذا سقط فيها متاعه، أو كفن بثوب مغصوب ،أو دفن في ملك الغير،أو دفن معه مال أحياء لحق المحتاج قد «أباح النبي - صلى الله عليه وسلم - نبش قبر أبي رعال لعصا من ذهب معه» كذا في المجتبى ،قالوا: ولو كان المال درهما. ودخل فيه ما إذا أخذها الشفيع فإنه ينبش أيضا لحقه كما في فتح القدير. وذكر في التبيين أن صاحب الأرض مخير إن شاء أخرجه منها، وإن شاء ساواه مع الأرض،وانتفع بها زراعة أو غيرها۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ٢/٢١٠)


اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں فتاوی بنوریہ میں اس طرح سے وضاحت فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

سوال 

کیا فرماتے ہیں علماءِ  کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک روڈ بنایا جا رہا ہے، اور یہ روڈ قبرستان کے پاس سے گزرے گا،جس کی وجہ سے دو قبریں ایسی ہیں جو روڈ کے احاطے میں آتی ہیں،ان میں سے ایک قبر چھ سال اور ایک قبر دس سال پرانی ہےتو کیا ان قبور کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے؟


جواب

صورتِ  مسئولہ میں  جوقبریں پرانی ہوکر مٹی ہوگئی ہوں  اس جگہ کو سڑک میں شامل کرسکتے ہیں، البتہ  اگر قبریں مٹی نہ ہوئی ہوں اور و ہ زمین  کسی شخص کی مملوکہ نہیں ہے، بلکہ عام زمین ہے  جہاں  یہ قبریں موجود ہیں تو انتظامیہ کو چاہیے کہ ان قبروں کو باقی رہنے دیاجائے۔ تاہم اگرمسمار کیے جانے کااندیشہ ہوتو  ورثاء ان قبروں کو دوسرے مقام پر منتقل کرسکتے ہیں۔


فتاوی شامی  میں ہے :


’’( ولا يخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً‘‘.(2/238)


فتاوی ہندیہ میں ہے:


’’ ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس‘‘. (4/486)


وفیه أیضاً:


’’ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها، وإذا حفر الرجل قبراً في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتاً؛ لاينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره؛ ليكون جمعاً بين الحقين، كذا في خزانة المفتين، وهكذا في المحيط۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤١٠٢٢٠٠٣٠٨)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: