منگل، 31 مئی، 2022

پیداوار میں عشر کا حکم سوال نمبر ٣٢٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت ایک کسان نےگہیوں کی فصل بوئی جسمیں خرچ آیا دس ہزار فصل کی پیداوار ہوتی آٹھ ہزار کی تو کیاہ اس کسان پر دسواں حصہ زکوٰۃ یا بیسواں حصہ نکال نہ ضروری ہے براہ مہربانی قرآن اور حدیث کی روشنی میں مع حوالہ کے جواب دیں جزاک اللہ

سائل: عبدالمنان رحیم پور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فقہاء نے جہاں عشری زمین کے مسائل بیان کئے ہیں وہاں یہ وضاحت کی ہے کہ عشر ایک لازمی فریضہ ہے جس میں پیداوار کی جتنی مقدار ظاہر ہو گی اتنی عشر کی مقدار لازم ہوگی، زمین سے جو غلہ نکلتا ہے اس کا عشر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، عشر کے لیے شریعت میں نصاب بھی مقرر نہیں، خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ، دونوں صورتوں میں پیداوار پر عشر لازم ہو گا۔


اور اس میں اس طرح سے وضاحت ہے کہ عشری زمین سال کے اکثر حصہ میں قدرتی آبی وسائل یعنی بارش، ندی، چشمہ وغیرہ سے سیراب کی جائے تو اس میں عشر یعنی کل پیداوارکا دسواں حصہ واجب ہوتا ہے، اور اگر وہ زمین مصنوعی آب رسانی کے آلات ووسائل مثلاً ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی سے یا بورویل سے سیراب کی جائے تو اس میں نصفِ عشر یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہوتا ہے۔ عشر دسواں حصہ یا نصف عشر یعنی بیسواں حصہ کل پیداوار پر لازم ہوتا ہے، عشر یا نصف عشر ادا کرنے سے پہلے قرض وغیرہ یا دیگر اخراجات کی رقم  بھی الگ نہیں کی جاسکتی لہذا جتنا نقصان ہوا ہے اس کا عشر نکالنا اس کے ذمہ واجب نہیں، البتہ جتنی فصل حاصل ہوئی ہے اس کا عشر ادا کرنا واجب ہے۔ 


محیط برہانی میں ہے

يؤخذ العشر من جميع ما أخرجته الأرض، و لايحتسب لصاحبها ما أنفق على الغلة من سقي، أو عمارة، أو أجرة حافظاً، وأجر العمال، ولا نفقة الثغور۔ (المحیط البرہانی: کتاب العشر، الفصل السابع في المتفرقات ٢/٣٣٨،ط.  دار الكتب العلمية، بيروت)


فتاوی ہندیہ میں ہے

ولاتحسب أجرة العمال ونفقة البقر، وكري الأنهار، وأجرة الحافظ وغير ذلك فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشراً أو نصفاً، كذا في البحر الرائق (فتاوی عالمگیری ١/١٨٧ )

ایضاً

ویجب العشر عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ فی کل ما تخرجہ الارض من الحنطۃ والشعیر والدحن والارز واصناف الحبوب والبقول والریاحین والاوراد والرطاب وقصب السکر والذریرۃ والبطیخ والقثاء والخیار والباذنجان والعصفر واشباہ ذلک ممالہ ثمرۃ باقیۃ او غیر باقیۃ قل او کثر۔ (فتاوی ہندیہ میں ہے ۱/۱۸٦ الباب السادس فی زکاۃ الزرع والثمار)


بدائع الصنائع  میں ہے

ومنها أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادةً، فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي؛ لأنّ هذه الأشياء لاتستنمى بها الأرض ولاتستغل بها عادةً؛ لأنّ الأرض لاتنمو بها، بل تفسد، فلم تكن نماء الأرض، حتى قالوا في الأرض: إذا اتخذها مقصبةً وفي شجره الخلاف، التي تقطع في كل ثلاث سنين، أو أربع سنين أنه يجب فيها العشر؛ لأن ذلك غلة وافرة۔ (٢/۵٨ فصل الشرائط المحلیة ط: سعید)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 29 مئی، 2022

ماء مستعمل کسےکہتے ہیں اور اس کا کیا حکم ہے؟ ٣٢٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت اگر بدن پر منی لگی ہوئی ہے اور اس کو پانی سے دھولیا تو کیا وہ پانی ماء مستعمل ہے نیز ماء مستعمل کسے کہتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

سائل: ابوالحارث اتراکھنڈ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


منی ناپاک ہے اگر کپڑے کو لگ جائے تو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے یعنی اس قدر دھونا ضروری ہے کہ مادہ منویہ کا اثر ختم ہوجائے، یا تین بار اس طرح دھوئے کہ ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑلے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں تو کپڑا پاک ہو جائے گا اور جب پانی  سے  منی کو ڈھویا جائے تو وہ پانی بھی ناپاک ہوئے گا لہذا اس پانی کا استعمال کسی اور چیز میں جائز نہیں ہے۔


جو پانی حدث اصغر یا حدث اکبر کو دور کرنے کے لئے یا قربت کی نیت سے بدن پر استعمال کیا گیا ہو، وہ جب اعضاء سے جدا ہوجائے تو وہ ماءِ مستعمل کہلاتا ہے ماء مستعمل کا حکم یہ ہے کہ وہ پاک ہے، لیکن نجاست حکمیہ کو پاک نہیں کرسکتا، یعنی اس سے وضو اور غسل کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر ماء مستعمل ناپاک چیزوں کو پاک کرنے کے لئے استعمال کیا جائے، تو اس سے ناپاک چیزیں پاک ہوجائیں گی، یعنی اس سے نجاست حقیقیہ کو دور کیا جاسکتا ہے۔


حدیث شریف میں ہے:

أخبرنا عمرو بن ميمون الجزري، عن سليمان بن يسار، عن عائشة قالت: كنت أغسل الجنابة من ثوب النبي صلى الله عليه وسلم، فيخرج إلى الصلاة، وإن بقع الماء في ثوبه. وفي حاشيته: (الجنابة) المراد أثرها أو سببها وهو المني۔ (صحيح البخاري، باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب من المرأة، ١/۵۵ قدیم رقم الحدیث: ٢٢٩ ط: دار طوق النجاة) 


 عمدة القاري شرح صحيح البخاری میں ہے

عن سليمان بن يسار عن عائشة، رضي الله تعالى عنها، قالت: (كنت أغسل المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء لفي ثوبه) . وإسناده صحيح على شرط مسلم۔ (باب غسل المني وفركه وغسل ما يصيب من المرأة، ٣/١٤٦ ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت) 


الجوهرة النيرة علی مختصر القدوری میں ہے:

(قوله: والمني نجس) وقال الشافعي: طاهر لقوله عليه السلام  لابن عباس: المني كالمخاط فأمطه عنك، ولو بإذخرة» ولأنه أصل خلقة الآدمي فكان طاهرًا كالتراب، ولنا «قوله عليه السلام لعمار بن ياسر وقد رآه يغسل ثوبه من نخامة: "إنما يغسل الثوب من خمس: من البول والغائط والدم والمني والقيء" فقرن المني بالأشياء التي هي نجسة بالإجماع فكان حكمه كحكم ما قرن به، وأما حديث ابن عباس فهو حجة لنا؛ لأنه أمره بالإماطة والأمر للوجوب كذا في النهاية ولأنه خارج يتعلق بخروجه نقض الطهارة كالبول ثم نجاسة المني عندنا مغلظة (قوله: يجب غسل رطبه فإذا جف على الثوب أجزأ فيه الفرك) قيد بالثوب؛ لأنه إذا جف على البدن ففيه اختلاف المشايخ قال بعضهم: لايطهر إلا بالغسل؛ لأن البدن لا يمكن فركه۔ (کتاب الصلاۃ، باب الانجاس، ١/٣٧ ط: المطبعة الخيرية)


فتاویٰ شامی میں ہے

(ولايجوز)۔۔۔۔بماء (استعمل ل) أجل (قربة) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من مميز أو حائض لعادة۔۔۔۔(وهو طاهر) ولو من جنب وهو الظاهر۔۔۔(و) حكمه أنه (ليس بطهور) لحدث بل لخبث على الراجح المعتمد.

(قوله: على الراجح) مرتبط بقوله بل لخبث: أي نجاسة حقيقية، فإنه يجوز إزالتها بغير الماء المطلق من المائعات۔ (الدر المختار مع رد المحتار ١/٣٤٨)


محيط برهاني میں ہے

يجب أن يعلم أن الماء الراكد إذا كان كثيراً فهو بمنزلة الماء الجاري لا يتنجس جميعه بوقوع النجاسة في طرف منه إلا أن يتغير لونه أو طعمه أو ريحه. على هذا اتفق العلماء، وبه أخذ عامة المشايخ، وإذا كان قليلاً فهو بمنزلة الحباب والأواني يتنجس بوقوع النجاسة فيه وإن لم تتغير إحدى أوصافه۔ (المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة ١/٨٧)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعہ، 27 مئی، 2022

دہ در دہ حوض کس کو کہتے ہیں؟ سوال نمبر ٣٢٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت دہ دردہ  حوض کا طول و عرض فٹ کے حساب سے کتنا ہوتا ہے؟

سائل ابو الحارث اتراکھنڈ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


حوض کی پاکی ناکی کے سلسلہ میں اصل اصول تو یہ ہے کہ دیکھا جائے گا کہ ایک جانب اس کے پانی کو حرکت دے تو اس حرکت کا اثر دوسری جانب پہنچتا ہے یا نہیں یعنی اسکی حرکت دوسرے کنارے تک پہنچ جائے تو وہ چھوٹا حوض ہے اور اگر نہ پہنچے تو وہ بڑا حوض ہے


بعد میں علماء نے لوگوں پر معاملے کو آسان کرنے کے لئے اسکا اندازہ دہ در دہ سے  لگایا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے جس میں حوض/ تالاب یا ٹینکی میں پانی کی سطح کا رقبہ ٢٢٥ اسکوائر فٹ ہو وہ دہ در دہ شمار ہوگا ایک شرعی گز اٹھارہ انچ ڈیڑہ فٹ کا ہوتاہے، لہٰذا دس شرعی گز پندرہ فٹ بنیں گے، پندرہ فٹ کو پندرہ میں ضرب دے دیں تو ٢٢٥ اسکوائر فٹ مقدار ہوگی اور لمبائی اور چوڑائی دونوں کا برابر برابر دس، دس ہاتھ ہونا ضروری نہیں، کل پیمائش کا دہ در دہ ہونا کافی ہے۔


احسن الفتاوی میں اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر حوض مربع (چوکور) ہو تو فٹ کے حساب سے دہ دردہ ہونے کے لیے اس کا مجموعی رقبہ ۲۲۵/ فٹ اور اگر گول ہو تو ۹۳ء ١٦/ فٹ ہوگا (احسن الفتاوی، ۲/٤٥ مطبوعہ: ایچ، ایم سعید کراچی)۔


الفتاوى الهنديہ میں ہے

والمعتبرذراع الکرباس کذافي الظهیریة. وعلیه الفتویٰ، کذافي الهدایة. وهو ذراع العامة: ست قبضات، أربع وعشرون أصبعاً، کذافي التبیین۔ (الفتاوى الهندية، ص ۱۱ ج۱ الفصل الثالث في المیاه، الثاني: المآء الراکد)


حلبي کبیر میں ہے

الحوض إذا کان عشراً فی عشرٍ أي طوله عشرة أذرع وعرضه کذلک، فیکون وجه الماء مائة ذراع۔

ایضاً

وإذا کان الحوض عشراً في عشر فهو کبیر لا یتنجس بوقوع النجاسة ... إذا لم یرلها أثر". ( حلبي کبیر ، فصل في أحکام الحياض، ص ۹۷ ۹۸، ط سهیل أکادمي، لاهور)


فتاوی شامی میں ہے

في النھر: وأنت خبیر بأن اعتبار العشر أضبط ولا سیما في حق من لا رأي لہ من العوام، فلذا أفتی بہ المتأخرون الأعلام أي: في المربع بأربعین وفي المدور بستة وثلاثین وفي المثلث من کل جانب خمسة عشر وربعا وخمساً بذراع الکرباس، ولولہ طول لا عرض لکنہ یبلغ عشراً في عشر جاز تیسیراً (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱/ ۳٤۱ ۳٤۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

منگل، 24 مئی، 2022

مدرسہ کے مدرس کے لئے مسجد کی بجلی اورپانی وغیرہ استعمال کرنا شرعا کیسا ھے؟ سوال نمبر ٣۲۵

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علماءِ ہذا الفن ومفتیانِ ہذا الزمن مسئلۂ ذیل میں: ہمارے یہاں ایک مدرسہ ہے۔ اور مدرسہ بالکل ابتدائی ہے، یہ مدرسہ دراصل ایک مسجد کا مکتب تھا۔ پھر آہستہ آہستہ حفظ اور اب عربی درجات شروع ہوئے، اور اسی مسجد میں طلبہ کے لیے ایک کونے میں چھوٹا سا کتب خانہ بنایا گیا ہے۔ جو چند الماریوں پر مشتمل ہے، اب ایک مدرس غیر شادی شدہ ہے۔ اس کے طعام کا انتظام تو بستی والے کرتے ہیں، لیکن اس کے قیام کے متعلق اہل مدرسہ نے کہا ہے کہ مسجد میں ہی جو کتب خانہ ہے۔ اس میں قیام کرے اب ظاہر ہے کہ جب وہ وہاں مستقل مقیم ہوگا تو نماز کے علاوہ اوقات میں بھی بجلی وغیرہ کا استعمال کرے گا تو کیا اس کا اس طرح قیام کرنا۔اور مسجد کی بجلی وغیرہ استعمال کرنادرست ہے۔۔؟؟اور اس سلسلہ میں اہل مدرسہ کی یا متولیانِ مسجد کی اجازت معتبر ہوگی یا نہیں ؟؟ بالتفصیل با حوالہ جواب مطلوب ہے ۔۔

سائل عبد المتین احمد آبادی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مساجد میں چندہ دینے والے اگر کسی خاص مصرف کے لیے چندہ دیں تو اس کو اسی مد میں خرچ کرنا ضروری ہے لیکن اگر چندہ دہندہ گان کسی خاص مصرف کی تعیین کئے بغیر چندہ دیں تو اس کو ان کے مطابق مسجد کے مصارف و مصالح میں خرچ کیا جاسکتا ہے البتہ مدرس کے لئے مساجد میں اگر معطین اور ذمہ داران کی طرف سے مدرس کے لیے مذکورہ چیزوں کے استعمال کی اجازت ہو تو جتنی اجازت ہو اتنی استعمال کرسکتے ہیں،

اس سلسلے میں فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں اس طرح سے رہنمائی فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں

سوال

مدرسہ کے مدرس اور مسجد کے امام کے لیے مدرسہ اور مسجد کی بجلی گیس اورپانی گھر میں استعمال کرنا شرعا 5کیسا ھے ؟

جواب

اگر معطین اور ذمہ داران کی طرف سے مدرس کے لیے مذکورہ چیزوں کے استعمال کی اجازت ہو تو جتنی اجازت ہو اتنی استعمال کرسکتے ہیں، یہی حکم مسجد کے امام کے لیے ہے، بلا اجازت درست نہیں۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر ٦٠٧١٣)


فتاوی عالمگیری میں ہے

واذا اراد ان یصرف شیا من ذالک الی امام  المسجد او الی مؤذن المسجد فلیس لہ ذالک الا ان کان الواقف شرط ذالک فی الوقف۔ (الفتاوی الہندیہ الفصل الثانی فی الوقف و تصرف القیم و غیرہ ٢/٤٦٣)


فتاوی شامی میں ہے

قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى۔ ( کتاب الوقف، مطلب في نقل انقاض المسجد ونحوہ، ٦/۵۵١)

ایضاً

على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا۔ (کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین ٦/٦٦۵) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

پیر، 23 مئی، 2022

قرآن کے بوسیدہ اور پھٹے ہوئے اوراق کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٢٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

بعد سلام عرض ہے کہ پرانے قرآن مجید پارہ عم

قاعدہ کے بوسیدہ اوراق و ٹکڑے وغیرہ وغیرہ کو کہا دفن کرے؟ اگر پورانے بندھ کنویں میں اوپر سے بوری بھر کے ڈال دیں تو صحیح ہے ؟؟؟ امید ہے کہ مفصل جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائے گے

سائل: محبوب خان الحسنی مانگرول گجرات الہند


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قرآنِ کریم کے جو اَوراق انتہائی بوسیدہ ہوجائیں اور استفادہ کے لائق نہ رہیں ان کی حفاظت کے خاطر ان کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایسی جگہ دفن کردینا افضل ہے جہاں لوگوں کا آنا جانا نہ ہو ،اسی طرح انھیں لپیٹ کر بہتے پانی میں بھی ڈالنے کی گنجائش ہے، البتہ پورانے بندھ کنویں میں اوپر سے بوری بھر کے ڈال دینے سے اس کے بے ادبی کا امکان ہے اس لئے ایسے کنویں میں ڈالنے کے بجائے دفن کردینا افضل ہے۔


فتاوی شامی میں ہے

الکتب التی لا ینتفع بہا یمحی عنہا اسم اللہ وملائکتہ ورسلہ ویحرق الباقی ولا بأس بأن تلقی فی ماء جار کما ہی أو تدفن وہو أحسن کما فی الأنبیاء ۔۔۔۔۔۔ وفی الذخیرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القرائة منہ لا یحرق بالنار إلیہ أشار محمد وبہ نأخذ، ولا یکرہ دفنہ، وینبغی أن یلف بخرقة طاہرة، ویلحد لہ لأنہ لو شق ودفن یحتاج إلی إہالة التراب علیہ، وفی ذلک نوع تحقیر إلا إذا جعل فوقہ سقف وإن شاء غسلہ بالماء أو وضعہ فی موضع طاہر لا تصل إلیہ ید محدث ولا غبار، ولا قذر تعظیما لکلام اللہ عز وجل اہ۔ (الدر المختارمع رد المحتار ٩/٦٠۵ کتاب الحظر والإباحة ط: زکریا دیوبند)


فتاویٰ ہندیہ میں ہے

المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة۔ (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن ۵/٣٢٣  ط: دار الفکر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

قرآن حدیث کے انکار کرنے والے اور ظالم والدین سے رشتہ رکھنے کا شرعی حکم سوال نمبر ٣٢٣

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

(1) ایک خاتون جو کہ مسلمان ہے اس نے ترکہ کے مسئلے کو لے کر پنچ حضرات کے درمیان کہہ دیا کہ میں قرآن اور حدیث کو نہیں مانتی تو اب اس کا کیا حکم ہے ؟ 

(2) اسی خاتون کے چھ بچے ہیں اور جو اس کا خاوند تھا اس کی تقریباً چالیس کروڑ روپے کی پراپرٹی اور جائداد وغیرہ تھی اس عورت نے صرف اپنے ایک بیٹے کے نام پر ساری جائداد کر دیا اور باقی تمام بچوں کو سینٹرل جیل میں قید کروا دیا !

 اب کیا یہ بچے اپنی والدہ سے تعلق رکھیں ؟

 ان کے لیے کیا حکم ہے ؟ یا پھر وہ ایسی ظالم سگی والدہ سے قطع تعلق کر لیں؟

سائل: عبداللہ مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کوئی شخص زبان سے اللہ تعالی کی ذات و صفات کے بارے میں کوئی توہین آمیز گفتگو کرے، یا انبیاء علیہم الصلاة والسلام کی شان میں گستاخی کرے، یا ضروریات دین یعنی جن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے اس کا انکار کرے تو انسان ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، ایمان کے بقاء کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کی ہر ہر آیت پر ایمان لانا فرض ہے جان بوجھ  کر قرآن کریم کی کسی ایک آیت کا بھی انکار کرنے سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، لہذا ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ صدقِ دل سے توبہ واستغفار کے ساتھ  تجدیدِ ایمان کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی کرے، اور آئندہ بہت احتیاط سے گفتگو کرے۔

 

وراثت کے مال میں جب شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کی مکمل پروپرٹی اس کی اولاد میں تقسیم ہوگی کسی ایک کے نام کرنا جائز نہیں ہے اور ایسا کرنے سے وہ مالک بھی نہیں ہوگا، اس کا وبال اور سزا کے وہ حقدار ہوں گے باقی تمام بچوں کو سینٹرل جیل میں قید کروانے سے مزید ظلم و زیادتی کا گناہ سرپر ہوگا۔


البتہ صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے تعلقات استوار رکھنا، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، گاہ بگاہ ان سے ملاقات کرنا اِسلام کا ایک اہم حکم ہے، احادیث میں صلہ رحمی کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور رشتہ ناطہ توڑنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، اور قطع تعلق کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اگر کوئی شخص اپنے والدین ہی سے قطع تعلق کرلے تو اس گناہ کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے، صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے  کہ رحم(یعنی رشتہ داری) کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے،اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ پس جو تجھے جوڑے گا ( یعنی صلہ رحمی کرے گا) میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لوں گا اور جو کوئی تجھے توڑے گا(یعنی قطع رحمی کرے گا)  میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لوں گا، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رشتے ناتے توڑنے والا جنت میں نہیں جائےگا۔


اور اسلام میں فاسق و فاجر شخص سے قطع تعلق کی گنجائش اس وقت دی گئی ہے جب کہ اصلاح کے دیگر ذرائع اختیار کئے جاچکے ہوں اور قطع تعلق سے اصلاح کی امید ہو، اگر یہ اندیشہ ہو کہ قطع تعلق سے مزید خرابی ہوگی تو تعلقات کی بحالی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرتے رہنا اور نصیحت جاری رکھنا چاہیے۔ البتہ جہاں تعلق کی بحالی کی صورت میں اس کی اصلاح کے بجائے اپنے (دینی یا دنیوی) نقصان کا اندیشہ ہو، وہاں بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت قطع تعلق کی گنجائش ہوتی ہے۔


مسؤلہ صورت میں قرآن وحدیث کا انکار کردینا یہ اسلام سے محرومی کا سبب ہے اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق وہ خارج از اسلام ہے وہ اپنے اس فعل قبیح سے توبہ کریں اور تجدیدِ ایمان کرے، البتہ ان کے ان افعال قبیحہ کی وجہ سے ان کے ساتھ قطع تعلق کا !عاملہ نہ کیا جائے بلکہ معاملہ استوار رکھتے ہوئے ان کو صحیح راہ کی طرف گامزن کرنے کی کوشش اور دعاء کرتارہے اور اگر تعلق بحال رکھنے میں دینی یا دنیوی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو شریعت نے ایسی صورت میں قطع تعلق کی گنجائش دی ہے۔


البحر الرائق میں ہے

ویکفر إذا أنکر آیةً من القرآن۔ ( البحر الرائق : باب أحکام المرتدین ۵/٢٠۵)


شرح الفقه الأکبر میں ہے

أنکر آیةً من القرآن کفر۔ ( شرح الفقه الأکبر لملا علي القاری ص: ١٦٧)(وكذا في الفتاوى الهندية، ٢/٢٦٦ رشیدیه) 


فتاوی شامی میں ہے

وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل و النکاح۔۔۔الخ۔ (رد المحتار ٢/٢٤٦ ط: دار الفکر)


فتاوی عالمگیری میں ہے

من شك في إيمانه، وقال: أنا مؤمن إن شاء الله، فهو كافر إلا إذا أول، فقال: لا أدري أخرج من الدنيا مؤمنا، فحينئذ لا يكفر، ومن قال بخلق القرآن، فهو كافر، وكذا من قال بخلق الإيمان فهو كافر ومن اعتقد أن الإيمان والكفر واحد فهو كافر ومن لا يرضى بالإيمان فهو كافر كذا في الذخيرة۔۔۔يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكا، أو ولدا، أو زوجة، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص ويكفر بقوله يجوز أنخ يفعل الله تعالى فعلا لا حكمة فيه ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر كذا في البحر الرائق.

فتاوی عالمگیری ٢/٢۵٧ ط: دار الفکر)


فتح الباری شرح صحیح البخاری  میں ہے

أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها۔ (قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، ١٠/٤٩٧ ،ط:دارالمعرفۃ بیروت)


مشکاة المصابیح مع المرقاة

قال الخطابی: رخص للمسلم أن یغضب علی أخیہ ثلاث لیال لقلتہ، ولایجوز فوقہا إلا إذا کان الہجران فی حق من حقوق اللہ تعالی، فیجوز فوق ذلک. وفی حاشیة السیوطی علی الموطأ، قال ابن عبد البر: ہذا مخصوص بحدیث کعب بن مالک ورفیقیہ، حیث أمرصلی اللہ علیہ وسلم أصحابہ بہجرہم، یعنی زیادة علی ثلاث إلی أن بلغ خمسین یوما. قال: وأجمع العلماء علی أن من خاف من مکالمة أحد وصلتہ ما یفسد علیہ دینہ أو یدخل مضرة فی دنیاہ یجوز لہ مجانبتہ وبعدہ (مشکاة المصابیح مع المرقاة، رقم: ۵٠٢٧)


 عارضۃ الاحوذی میں ہے:

وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجره حتى  ينزع عن فعله وعقده ، فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلةً حتى صحّت توبتهم عند الله، فأعلمه فعاد إليهم۔ (عارضۃ الأحوذي لابن العربي المالکي ٧/١١٦ أبواب البر والصلة، ط: دارالکتب العلمیة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


 العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 21 مئی، 2022

دیہات میں جماعت جمعہ کا حکم سوال نمبر ٣٢٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

ایک آدمی  جمعہ کے دن شہر سے ٤٠ کلوميٹر دیہات میں کاروبار کے لیے جاتا ہے وہاں کسی جگہ مسجد نہی ہے اور وہ آدمی ظھر کی نماز ادا کرتا ہے تو اس آدمی پر جمعہ کی نماز نہ ادا کرنے کا گناہ ہوگا کے نہیں اور وہاں مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے اور وہ اکیلا نماز پڑھتا ہے 

سائل: سعیداحمد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احناف کے یہاں صحتِ جمعہ کے لیے کچھ اہم شرطیں ہیں جیسے شہر یا قصبہ یا اس کا فِنا (مضافات) ہونا، ظہر کا وقت ہونا، ظہر  کے وقت میں نمازِ  جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا، جماعت یعنی امام کے علاوہ  کم از   کم تین آدمیوں کا خطبے کی ابتدا سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا، اذنِ عام (عام اجازت اور اذان و اعلان) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔


مسؤلہ صورت میں جس طرح سے وضاحت ہے کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے اور وہ اکیلا نماز پڑھتا ہے اسی طرح وہ دیہات ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہاں پر جمعہ کی شرائط میں سے جماعت کا ہونا اور مصر کا ہونا مفقود ہے  لہذا وہاں اس پر نماز جمعہ کا وجوب ہی متحقق نہیں ہوتا اور جب جمعہ کا وجوب متحقق نہیں ہوا تو اس پر اس کے چھوڑ نے کا گناہ بھی نہیں ہوگا۔


بدائع الصنائع میں ہے

وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١/٢۵٩)


البحر الرائق میں ہے

(قوله والجماعة وهم ثلاثة) أي شرط صحتها أن يصلي مع الإمام ثلاثة فأكثر؛ لإجماع العلماء على أنه لا بد فيها من الجماعة، كما في البدائع، وإنما اختلفوا في مقدارها فما ذكره المصنف قول أبي حنيفة ومحمد، وقال أبو يوسف: اثنان سوى الإمام؛ لأنهما مع الإمام ثلاثة، وهي جمع مطلق؛ ولهذا يتقدمهما الإمام ويصطفان خلفه، ولهما أن الجمع المطلق شرط انعقاد الجمعة في حق كل واحد منهم وشرط جواز صلاة كل واحد منهم ينبغي أن يكون سواه فيحصل هذا الشرط ثم يصلي، ولايحصل هذا الشرط إلا إذا كان سوى الإمام ثلاثة؛ إذ لو كان مع الإمام اثنان لم يوجد في حق كل واحد منهم الشرط بخلاف سائر الصلوات؛ لأن الجماعة فيها ليست بشرط، كذا في البدائع۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق  ۵/١٧١)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

نماز اور روزوں کے فدیہ کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٢١

 سوال

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

جناب والا کے خدمت سے جاننا چاہتا ہوں کہ میت کے لئے فوت شدہ نمازوں کے عوض فدیہ دینا کیاہے ؟ کیا شریعت میں اس کے کوئی اصل ؟ مع الدلائل مطلوب ہے ۔جزاک اللہ خیرا

سائل: عطاء اللہ بنگلہ دیشی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عبادات کی تین قسمیں ہے ایک بدنی عبادت جیسے نماز روزہ دوسرے نمبر پر مالی عبادت جیسے زکوۃ تیسرے نمبر پر مالی اور بدنی دونوں پر مشتمل عبادت جیسے حج۔


پہلی قسم کا حکم یہ ہے کہ کوئی بھی آدمی دوسرے کی طرف سے قضا نمازیں اور قضا روزے ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی ادا کرنے سے وہ ادا ہو سکتی ہیں، چاہے دوسرا آدمی زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو۔


اور دوسری قسم کا حکم یہ ہے کہ اگر دوسرے کی اجازت ہو تو اس کی طرف سے ادا کرنے سے ادا ہوجائے گی۔


تیسری قسم استطاعت پر محمول ہے اگر قدرت ہے تو دوسرا ادا نہیں کرسکتا اور اگر قدرت نہیں ہے تو کسی اور سے کرواسکتا ہے


یہ حکم زندہ ہونے کی صورت میں ہے لیکن اگر کسی کا انتقال ہوجائے اور اس پر نمازوں اور روزوں کی قضاء باقی ہے اسی طرح حج کرنا باقی ہے تو فوت شدہ آدمی کے ذمہ واجب الادا نمازوں اور روزوں کی طرف سے فدیہ اور حج بدل ادا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز اور روزوں کے فدیہ اور حج بدل کی وصیت کرجائے اگر اس نے وصیت نہیں کی ہے تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم  نہیں ہوگا، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔


اور اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں اور روزے باقی ہوں تو اگر اس نے اپنی قضا نمازوں یا قضا روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی اور حج بدل کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کریں، اگر ایک تہائی ترکے میں سے تمام قضا نمازوں یا روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے تو بہترہے ورنہ جتنی قضا نمازوں یا روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے وہ ادا کیا جائے ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا،


ایک نماز اور روزہ کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے،  اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔


فتاوی شامی میں ہے

(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤/١٣)

ایضاً

(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله)۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/۵٣٢)


شرح الزيادات میں ہے

العبادات ثلاثة أنواع، منها بدنية لا تعلق لها بالمال كالصوم والصلاة، فلا تجري فيها النيابة بحال. ومنها ما يتعلق بالمال كالزكاة والصدقات، يجوز فيها النيابة على كل حال. ومنها ما يتأدى بالبدن ولها تعلق بالمال أيضا، كالحج، تجوز فيها النيابة عند العجز، ولا تجوز عند القدرة، لأن لها حظا من الشبهين، فكا حكمها بين حكمين. هذا هو ظاهر مذهب أصحابنا، فقد ذكر محمد رحمه الله فيمن يحج عن غيره حجة الإسلام جاز عن المحجوج به، انتهى۔ (قاضي خان في شرح الزيادات ٥/١٥٦٠)


 بدائع الصنائع میں ہے

وأما وجوب الفداء فشرطه العجز عن القضاء عجزا لا ترجى معه القدرة في جميع عمره، فلا يجب إلا على الشيخ الفاني، ولا فداء على المريض والمسافر ولا على الحامل والمرضع وكل من يفطر لعذر ترجى معه القدرة، لفقد شرطه، وهو العجز المستدام، وهذا لأن الفداء خلف عن القضاء، والقدرة على الأصل تمنع المصير إلى الخلف، كما في سائر الأخلاف مع أصولها، ولهذا قلنا: إن الشيخ الفاني إذا فدى ثم قدر على الصوم بطل الفداء، انتهى۔ (بدائع الصنائع میں ہے ٢/١٠٥)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعہ، 20 مئی، 2022

ادھار زکوۃ کے رقم کی رسید کاٹنے کے بعد مالک کی طرف سے رقم نہ ملے تو کیاکریں؟ سوال نمبر ٣٢٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

جی مجھے یہ معلوم کرناہے کہ میں نےاپنی سرپرستی میں ایک آدمی کی ایک مدرسے کی رسید کٹوائی ادھار زکوٰۃ میں اب مدرسے والے تقاضہ کر رہے ہیں اور وہ آدمی پیسے دینے کے لئے تیار نہیں ہورہا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ آدمی نہیں دیگا تو اگر میں وہ پیسے مدرسے والوں کو اپنی طرف سے زکوٰۃ کی نیت کرکے دیدوں تو کیا میری طرف سے زکوٰۃ ادا ہوجائیگی یا نہیں جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

سائل: محمد رضوان جمالپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زکوة کا پیسہ جب تک کسی مستحق یا اس کے ولی (شرعی سرپرست)یا وکیل کو نہ دیدیا جائے، دینے والے کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتا لہذا جس  آدمی کی زکوٰۃ میں ادھار رسید کٹوائی گئی ہے  اور وہ اب دینے کے لئے راضی نہیں ہے تو وہ رقم آپ اپنی طرف سے یا کسی اور سے لیکر دے سکتے ہیں اگر آپ کے اوپر زکوۃ واجب ہے تو آپ کے دینے سے آپ کی زکوۃ اد ہوجائے گی یا کسی اور سے لیکر دیتے ہیں تو اس کی ادا ہوگی اس لئے کہ فقہاء نے لکھاہے کہ جب تک زکوۃ کی رقم مستحق یا اس کے ولی (شرعی سرپرست) یا وکیل کو نہ دیدی جائے اس وقت تک دینے والے کی ملکیت سے وہ رقم خارج نہیں ہوتی جب اس نے رقم نہیں دی تو اس کی زکوۃ کی رسید کٹوانے سے زکوۃ کی وصولی کا حکم نہیں ہوگا۔


فتاوی شامی میں ہے

ولا یخرج عن العھدة بالعزل؛ بل بالأداء للفقراء ۔۔۔ (قولہ: ”ولا یخرج عن العھدة بالعزل“: فلو ضاعت لا تسقط عنہ الزکاة ولو مات کانت میراثاً عنہ بخلاف ما إذا ضاعت في ید الساعي؛ لأن یدہ کید الفقراء، بحر عن المحیط (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ٣/١٨٩ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعرات، 19 مئی، 2022

سفر میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کیسے کریں؟ سوال نمبر ٣١٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب بہت خوشی ہوئی علم جاننے کے لیے اس گروپ کی شدید ضرورت ہے اللہ تعالیٰ آپکی ہر مرادیں پوری فرمائے 

سفر میں چھوٹی ہوئی نمازوں کو کس طرح قضاء کی جائے پوری ادا کرنی پڑےگی یا قصر کی قضاء کیجائے ؟

سائل محمد سعید بن یعقوب کھاتوڑا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سفر میں جو نمازیں قضا ہوئی ہوں ان کی قضا حضر میں یعنی مقیم ہونے کی حالت میں کر سکتے ہیں، اسی طرح حضر  میں جو نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کی قضا سفر میں بھی کر سکتے ہیں، البتہ سفرِ شرعی کے دوران جو نمازیں کسی وجہ سے قضا ہوگئی ہوں تو ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نمازیں قصر کے ساتھ دو، دو رکعت ہی قضا پڑھی جائے گی چاہے وہ قضاء سفر کی حالت میں کریں یا اپنے مقام پر رہ کر کریں اور مابقیہ نمازیں پوری پڑھی جائے گی، اور اپنے مقام پر چھوٹی ہوئی نمازیں مکمل پڑھی جائے گی اس میں قصر جائز نہیں ہے چاہے وہ ان نمازوں کی قضاء سفر کی حالت میں کریں۔


فتاوی شامی میں ہے

( والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت ) وهو قدر ما يسع التحريمة ( فإن كان ) المكلف ( في آخره مسافرا وجب ركعتان وإلا فأربع ) لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله۔ 

(قوله والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس (قوله وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر ، والذي في شرح المنية تفسيره بما لا يبقى منه قدر ما يسع التحريمة وعند زفر بما لا يسع فيه أداء الصلاة (قوله وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيما وقوله : وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافرا بأن كان مقيما في آخره فالواجب أربع . قال في النهر : وعلى هذا قالوا لو صلى الظهر أربعا ثم سافر أي في الوقت فصلى العصر ركعتين ثم رجع إلى منزله لحاجة فتبين أنه صلاهما بلا وضوء صلى الظهر ركعتين والعصر أربعا لأنه كان مسافرا في آخر وقت الظهر ومقيما في العصر (قوله لأنه) أي آخر الوقت . (قوله عند عدم الأداء قبله) أي قبل الآخر۔ (فتاوی شامی ٢/٦١٣) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

مسجد میں غیر مسلموں کی رقم استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣١٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ۔ مسٔلہ یہ ہے کہ اگر غیر مسلم  مسجد کے کام کیلئے روپیہ اگر دینا چاہیے تو  تو کیا سولر پاور سسٹم کے لئے استعمال کرسکتے ہیں؟

سائل: عنایت اللہ ابن عبد اللہ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


غیر مسلم اگر نیک کام سمجھ کر مسجد کو رقم دے اور اس سے رقم لینے میں کسی قسم کا اندیشہ بھی نہ ہو تو اس کا پیسہ مسجد کے لیے استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی، اور مسجد کے کسی بھی کام میں اس کی رقم لگانے کی اجازت ہوگی، لہذا مساجد کے نظام میں اگر غیر مسلم کی امداد کی وجہ سے کوئی خلل اندازی نہیں ہوتی ہے اور آئندہ ان کی طرف سے کسی قسم کی دخل اندازی کا اندیشہ نہیں ہے، توایسی صورت میں ان کی امداد لینے کی گنجائش ہے، ورنہ حالات کے تناظر میں مستقبل میں کوئی پریشانی کا امکان ہو تو امداد لینے سے احتیاط ضروری ہے۔


مسؤلہ صورت میں غیر مسلم  مسجد کے کام کیلئے تقرب کی نیت سے روپیہ دینا چاہیے تو اس کو سولر پاور سسٹم کے لئے استعمال کرسکتے ہیں جائز ہے لیکن جہاں تک ہوسکے ان کے پیسے قبول نہ کئے جائے تو اچھا ہے تاکہ بعد میں کسی قسم کے مسائل کھڑے نہ ہو 


البحرالرائق میں ہے۔

فصح وقف الذمي بشرط کونہ قربۃ عندنا وعندہم، وقولہ: بخلاف ما لو وقف علی مسجد بیت المقدس، فإنہ صحیح؛ لأنہ قربۃ عندنا وعندہم۔ (البحرالرائق، کتاب الوقف، زکریا دیوبند ۵/ ۳۱۶، کوئٹہ ۵/ ۱۸۹-۱۹۰)


فتاوی ہندیہ میں ہے۔

ولو أوصی بثلث مالہ بأن یحج عنہ قوم من المسلمین أو یبنی بہ مسجدا للمسلمین إن کان ذلک لقوم بأعیانہم صحت الوصیۃ، وتعتبر تملیکا لہم۔ (ہندیۃ، کتاب الوصایا، الباب الثامن: في وصیۃ الذمي والحربي، زکریا قدیم ۶/ ۱۳۲، جدید ۶/ ۱۵۲)۔ (فتاویٰ قاسمیہ ٢١/٧٠٨)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

قرض لیکر حج کیا پھر صاحب نصاب ہوگیا تو پہلے حج کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣١٧

 سوال

مفتی صاحب اگر ایک بندہ پہ حج فرض نہ ہو لیکن پھر بھی وہ ادھار لے کر حج کر لیتا ہے پھر اس بعد وہ شخص بہت مالدار ہو جاتا ہے اب اس پہ دوبارا حج فرض ہوگا یا وہ پہلے والا حج کافی ہوگا

سائل محمد عبداللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


حج کی فرضیت کے لئے استطاعت کا ہونا ضروری ہے یعنی کسی عاقل بالغ مسلمان  شخص کے پاس قرضہ کی رقم  الگ کرنے کے بعد اگر اتنی رقم موجود رہے جس سے زندگی میں ایک بار مکہ مکرمہ تک آنے جانے کے سفر اور وہاں پر کھانے، پینے رہنے اور قربانی وغیرہ کے خرچہ اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے خرچہ کا بندوبست ہوسکتاہے تو ایسے شخص پر حج کرنا فرض ہوجاتاہے موجودہ زمانہ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرض کی رقم  اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے  خرچہ کی رقم الگ کرنے کے بعد حکومت کی طرف سے حج کرنے کے لیے جتنی رقم کا اعلان ہوتا ہے اتنی رقم موجود ہے تو  زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہوجاتا ہے۔


اب اگر کوئی صاحب استطاعت نہیں ہے اس پر حج بھی فرض نہیں ہے اور وہ حج کررہاہے تو دیکھا جائے گا کہ اس نے حج کرتے وقت کیا نیت کی ہے اگر اس نے حج فرض کی نیت سے حج کیا ہو تو اس پر دوبارہ حج کرنا فرض نہیں ہے اگر نفل کی نیت سے حج کیا ہو تو استطاعت ہونے پر دوبارہ حج فرض کرنا ہوگا عالمگیری میں ہے کہ فقیر نے پیدل حج کیا پھر مالدار ہوگیا تو اُس پر دوسرا حج فرض نہیں اسی طرح شامی میں ہے فلو نواہ نفلاً لزمہ الحج ثانیا کہ اگر نفل کی نیت سے حج کیا ہے تو دوبارہ حج لازم ہوگا اور اگر فرض کی نیت سے کیا ہے تو استطاعت کے بعد حج کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔


صورت مسؤلہ میں اگر اس نے فرض حج کی نیت کی ہے تو اس کا فرض حج ادا ہوجائے گا لیکن اگر اس نے نفل کی نیت سے حج کیا ہے تو مالداری کے بعد اس کا لوٹانا ضروری ہے۔


فتاوی عالمگیری میں ہے

(و منها القدرة على الزاد والراحلة) بطريق الملك أو الإجارة دون الإعارة و الإباحة سواء كانت الإباحة من جهة من لا منة له عليه كالوالدين و المولودين أو من غيرهم كالأجانب، كذا في السراج الوهاج. و لو وهب له مال ليحج به لايجب عليه قبوله سواء كان الواهب ممن تعتبر منته كالأجانب أو لاتعتبر كالأبوين و المولودين، كذا في فتح القدير. و تفسير ملك الزاد و الراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، و هو ما سوى مسكنه و لبسه و خدمه، و أثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبًا و جائيًا راكبًا لا ماشيًا و سوى ما يقضي به ديونه و يمسك لنفقة عياله، و مرمة مسكنه و نحوه إلى وقت انصرافه، كذا في محيط السرخسي. و يعتبر في نفقته و نفقة عياله الوسط من غير تبذير و لا تقتير، كذا في التبيين. و العيال من تلزمه نفقته، كذا في البحر الرائق. و لايترك نفقة لما بعد إيابه في ظاهر الرواية، كذا في التبيين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفقير إذا حج ماشياً ثم أيسر لا حج عليه، هكذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية کتاب المناسک باب فی تفسیر الحج وشرائطہ ١/٢٤٠)


فتاوی شامی میں ہے۔

وشرحه أن الفقير الآفاقي إذا وصل إلى ميقات فهو كالمكي في أنه إن قدر على المشي لزمه الحج ولا ينوي النفل على زعم أنه فقير لأنه ما كان واجبا عليه وهو آفاقي، فلما صار كالمكي وجب عليه، حتى لو نواه نفلا لزمه الحج ثانيا اه‍. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخلاف ما لو خرج ليحج عن نفسه وهو فقير، فإنه عند وصوله إلى الميقات صار قادرا بقدرة نفسه فيجب عليه۔ (فتاوی شامی ٤/٢٢)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا