اتوار، 1 مئی، 2022

بریوی امام کے پیچھے عید کی نماز کا حکم سوال نمبر ٣٠٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت کیا بریلوی حضرات کے پیچھے عید نماز پڑھنا جائز ھے یعنی جو بریلوی حضرات یارھویں بارھویں مناتے ھیں شیخ عبدالقادر جیلانے رحمہ اللہ کے نام پر اور جو المدد یا غوث اعظم کے نارے لگاتے ھیں؟  براء مھربانی تفصیل سے بتائیے گا 

سائل سیف اللہ باکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کسی کی اقتدا میں نماز کے جواز اور عدمِ جواز کا تعلق اس شخص کے عقیدے اور نظریہ سے ہے لہٰذا اگر کسی شخص کا عقیدہ حدِکفر تک پہنچتا ہو تو اس کی اقتدامیں نماز جائز نہیں ہے، اور اگر عقیدہ حدِکفر تک نہیں پہنچتا تو اس کی اقتدا میں نماز جائز ہوگی یہ ایک اصلی بات ہے۔ 

جہاں تک بریلوی فرقے کی بات ہے تو ان کے بارے میں ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ نہیں دیا ہے، ان حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کے بدعتی اور گم راہ  ہونے کا فتویٰ دیا گیا ہے، مطلقاً ان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا گیا لہذا ان میں سے جو عملی بدعات میں مبتلا ہیں انہیں بدعتی کہا جائے گا، اور جو جمہور اہلِ سنت والجماعت سے جداگانہ عقائد رکھتے ہیں انہیں بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ اور اہلِ ہویٰ میں سے کہا جائے گا۔

البتہ ان کی اقتدا میں نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، صحیح العقیدہ امام مل جائےتو ایسے بدعتی امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے ، جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے ، اور اس نماز کے اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، البتہ متقی پرہیزگار  کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے  اتنا ثواب نہیں ملے گا.


اس سلسلہ میں فتاوی بنوریہ کا ایک جواب پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔

جواب

اگر بریلوی مسلک  کا امام  شرکیہ عقائد نہیں رکھتا صرف بدعات میں مبتلا ہے، جیسے تیجہ ، چالیسوں وغیرہ تو اس کی امامت مکروہِ تحریمی ہے، صحیح العقیدہ  امام مل جائےتو ایسے بدعتی امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے ، جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے ، اور اس نماز کے اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، البتہ متقی پرہیزگار  کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے  اتنا ثواب نہیں ملے گا.


اور اگر بریلوی مسلک کا  امام شرکیہ عقائد میں مبتلا ہو، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر وناظر ، یا عالم الغیب یا مختارِ کل سمجھتا ہو تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔ البتہ جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں ہوگا.فقط واللہ اعلم (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن  فتوی نمبر ١٤٣٩٠٩٢٠٠٨٢٦)


رد المحتار میں ہے

(قوله: (قوله وهي اعتقاد الخ) عزا هذا التعريف في هامش الخزائن إلى الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا يخفى أن الاعتقاد يشمل ما كان معه عمل أو لا، فإن من تدين بعمل لا بد أن يعتقده، كمسح الشيعة على الرجلين، وإنكارهم المسح على الخفين ونحو ذلك، وحينئذ فيساوي تعريف الشمني لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله (ص) من علم أو عمل أوحال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما ا ه‍. فافهم۔ (كتاب الصلاة، بَابُ الْإِمَامَةِ، ٢٩٩/٢)


طحطاوی میں ہے:

كره إمامة الفاسق، .... والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طاعة اﷲ تعالی بارتكاب كبیرة. قال القهستاني: أي أو إصرار علي صغیرة. (فتجب إهانته شرعاً فلایعظم بتقدیم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده كون الکراهة في الفاسق تحریمیة ( طحطاوی علی مراقی ص ٣٠٣ ط: دارالکتب العلمیة)


البحر الرائق میں ہے۔

ويكره الاقتداء بهم ( إلى قوله ) فإن أمكن الصلواة خلف غيرهم فهو أفضل وإلا فالاقتداء أولى عن الانفراد . ( البحر الرائق ، كتاب الصلاة ، باب الإمامة زكريا ١ / ٦١٠ ، کوٹنه ٣٤٩/١ )


البحر الرائق میں دوسری جگہ ہے۔

ولـو صـلـى خـلـف فاسق أو مبتدع ينال فضل الجماعة لكن لا ينال كـمـا يـنـال خلف تقى ورع الخ . ( الـبـحـر الـرائـق ، كـتـاب الصلاة ، باب الإمامة ، زكريا ٦١٠/١ )


حاشیة الطحطاوي علی المراقي میں ہے۔

 کرہ إمامة الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین،فتجب إھانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامة، قولہ:”فتجب إھانتہ شرعاً،فلا یعظم بتقدیمہ للإمامة“، تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراھة فی الفاسق تحریمیة۔ (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، ص ۳۰۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: