سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بعد سلام عرض ہے کہ پرانے قرآن مجید پارہ عم
قاعدہ کے بوسیدہ اوراق و ٹکڑے وغیرہ وغیرہ کو کہا دفن کرے؟ اگر پورانے بندھ کنویں میں اوپر سے بوری بھر کے ڈال دیں تو صحیح ہے ؟؟؟ امید ہے کہ مفصل جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائے گے
سائل: محبوب خان الحسنی مانگرول گجرات الہند
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قرآنِ کریم کے جو اَوراق انتہائی بوسیدہ ہوجائیں اور استفادہ کے لائق نہ رہیں ان کی حفاظت کے خاطر ان کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایسی جگہ دفن کردینا افضل ہے جہاں لوگوں کا آنا جانا نہ ہو ،اسی طرح انھیں لپیٹ کر بہتے پانی میں بھی ڈالنے کی گنجائش ہے، البتہ پورانے بندھ کنویں میں اوپر سے بوری بھر کے ڈال دینے سے اس کے بے ادبی کا امکان ہے اس لئے ایسے کنویں میں ڈالنے کے بجائے دفن کردینا افضل ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
الکتب التی لا ینتفع بہا یمحی عنہا اسم اللہ وملائکتہ ورسلہ ویحرق الباقی ولا بأس بأن تلقی فی ماء جار کما ہی أو تدفن وہو أحسن کما فی الأنبیاء ۔۔۔۔۔۔ وفی الذخیرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القرائة منہ لا یحرق بالنار إلیہ أشار محمد وبہ نأخذ، ولا یکرہ دفنہ، وینبغی أن یلف بخرقة طاہرة، ویلحد لہ لأنہ لو شق ودفن یحتاج إلی إہالة التراب علیہ، وفی ذلک نوع تحقیر إلا إذا جعل فوقہ سقف وإن شاء غسلہ بالماء أو وضعہ فی موضع طاہر لا تصل إلیہ ید محدث ولا غبار، ولا قذر تعظیما لکلام اللہ عز وجل اہ۔ (الدر المختارمع رد المحتار ٩/٦٠۵ کتاب الحظر والإباحة ط: زکریا دیوبند)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة۔ (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن ۵/٣٢٣ ط: دار الفکر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں