سوال
السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب ایک شخص نے دوسرے بندے سے کچھ سامان لیا تھا کہ تین مہینوں میں پیسے دے دونگا لیکن اس نے پیسے نہیں دیے اور اسی میں تین سال گزر گئے اب جو وہ بندہ ادائیگی کریگا تو آجکی قیمت شمار ہوگی یا اسوقت کی یااسی طرح سامان بازار سے خرید کر دیگا نوٹ قیمت میں بھت زیادہ فرق آرہاہے اسلیے یہ سوال پوچھا؟
سائل محمد عبداللہ پاکستانی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی چیز کو فروخت کرنے کے بعد آپسی رضامندی سے ثمن کو باقی رکھنا یہ قرض شمار ہوگا اور قرض کی ادائیگی کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے اتنی ہی مقدار قرض دار پر واپس کرنالازم ہے، چاہے جتنے عرصے بعد واپسی ہو، قرض کی مالیت گھٹنے یا بڑھنے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے، چنانچہ شریعت مطہرہ نے یہ اصول واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ’’الدیون تقضیٰ بأمثالها‘‘ یعنی قرضوں کی واپسی ان قرضوں کے مثل (برابر) سے ہی ہوگی، اور اگر قرض کی واپسی میں اضافہ کی شرط لگائی جائے تو وہ عین سود ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے۔
(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحًا، أو أقرضه و شرط شرطًا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعًا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لايقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطةً في القرض۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٧/٣٩۵)
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے۔
(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية۔ ١/٢٧٩)
تنقیح الفتاوی الحامدیة میں ہے۔
الدیون تقضیٰ بأمثالها (کتاب البیوع باب القرض، ١/۵٠٠ ط:قدیمی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں