پیر، 9 مئی، 2022

حج بدل کا طریقہ اور اس کے شرائط سوال نمبر ٣١٠

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب حج بدل یعنی اگر کوئی شخص اپنے مرحوم والدین یا کسی اور مرحوم عزیز کی طرف سے حج کروانا چاہتا ہو تو اسکا طریقہ کی وضاحت فرمائیں 

1۔جو ان مرحومین کی طرف سے حج کرے گا۔اسکا رشتہ کیا ہونا چاہئے؟

2۔دوسرا جو حج کرے گا اسکا پہلے سے حج کیا ہونا لازمی ہے؟

3۔اور یہ جو حج ہو گا اسکا ثواب بلکل بعین اسی طرح ہو گا جسطرح اگر وہ مرحوم خود حج کرتا؟

4۔دوسرا جو شخص حج کرے گا اسکو کتنا اجر ملے گا؟کیونکہ اس نے نیت تو اپنی نہیں کی ہو گی؟؟

سائل محمد عبداللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جس شخص پر ایک مرتبہ حج فرض ہوجائے تو اس کے بعد اس کی ادائیگی اس کے ذمہ میں باقی رہے گی، اگرچہ حج کے لیے جمع شدہ رقم خرچ ہوجائے، لہذا اگر مرنے سے پہلے حج کرنے کے اسباب میسر ہوجائیں تو حج ادا کرلے، ورنہ مرنے سے پہلے حج بدل کی وصیت کرنا ضروری ہے۔ اور جب حج فرض ہوگیا اور حج ادا کرنے کا وقت ملا لیکن ادا نہیں کیا اور بعد میں ادا کرنے سے عاجز ہوگیا، یا قید ہوگیا، یا ایسا مرض لاحق ہوگیا کہ جس کی دور ہونے کی امید نہیں اور جب ایسا معذور ہوجائے کہ اپنا حج فرض خود ادا نہ کرسکتا ہو اور نہ ہی آئندہ حج کرنے کی قدرت پیدا ہونے کی امید ہو یا وہ عورت ہو اور اس کے لیے محرم نہ ہو تو ان صورتوں میں دوسرے سے حج کرانا چاہے وہ رشتہ دار ہو یا نہ ہو فرض ہے اپنی زندگی میں کرائے یا مرنے کے بعد حج کرانے کی وصیت کر جائے لہذا دوسرے کو اپنی طرف سے حج بدل کے لیے بھیجنا سکتاہے یا وصیت کرسکتا ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے مال سے دوسرے کوحج کے لیے بھیج دیا جائے ایسی صورت میں دوسرے کا حج بدل کرنا جائز ہے اور اس کے کرنے سے موکل کا فریضہ حج ادا ہو جائے گا۔


حج بدل کر کا طریقہ

حجِ بدل کرنے والے کے لیے اصل حکم تو یہ ہے کہ وہ حجِ افراد کرے، یعنی جس حج میں دمِ شکر ادا کرنا نہیں ہوتا، پس اگر حجِ افراد کرنے کی ہمت نہ ہو، تو حجِ بدل کرانے والے کی اجازت سے حجِ تمتع کرنے کی اجازت ہوگی، تاہم اگر حجِ بدل کرانے والے شخص نے حجِ تمتع کی اجازت نہیں دی تو حجِ بدل میں حجِ افراد  ہی کرنا ضروری ہوگا۔


حج بدل کرنے والے نے اپنا حج نہ کیا ہو

افضل یہ ہے کہ حج بدل کے لیے ایسے شخص کو بھیجا جائے جو اپنا حج پہلے کرچکا ہو؛ لیکن اگر اپنا حج فرض ادا کئے بغیر بھی کوئی شخص دوسرے کی طرف سے حج بدل کرلے تو بھی صحیح ہوجاتا ہے ؛ البتہ اگر مستطیع شخص اپنا حج فرض ادا کرنے کے بجائے دوسرے کی طرف سے حج بدل کے لئے جائے، تو اس کا یہ عمل مکروہ تحریمی ہے اور غیر مستطیع شخص جس پر حج فرض نہیں ہوا وہ اگر ایسا کرے تو یہ خلافِ اولیٰ ہے ؛ لیکن حج بدل بہر دو صورت ادا ہوجائے گا؛


لہذا جس شخص پر حج فرض ہو اس کے لیے اپنا حج چھوڑ کر حج بدل کرنا مکروہ ہے البتہ حج بدل ادا ہو جائے گا لیکن اس شخص کا اپنا حج ادا نہیں ہوگا اسے اپنا فرض حج دوبارہ ادا کرنا ہوگا، اور جس پر فرض نہیں ہے اس کے لئے اپنا حج چھوڑ کر حج بدل کرنا خلاف اولی ہے۔


حج بدل سے بعینہ وہی ثواب ہوگا جو حیاتی کی صورت میں ملتاہے

اس سلسلے میں احادیث میں جو وارد ہے اس سے تو یہی مترشح ہوتا ہے کہ یہ جو حج ہو گا اسکا ثواب بلکل بعینہ اسی طرح ہو گا جس طرح اگر وہ مرحوم خود حج کرتا تو اس کو ثواب میسر ہوتا۔


مشکوۃ کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری بہن نے حج کرنے کی منت مانی تھی لیکن ان کا انتقال ہوگیا اور منت پوری نہ کرسکیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر ان پر کسی کا قرض ہو تا تو تم ادا کرتے یا نہیں؟ سائل نے کہا کہ ہاں میں ادا کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا قرض کا ادا کیا جانا اور ضروری ہے۔


اسی طرح ایک اور حدیث میں سوال کرنے والی خاتون نے یہ دریافت کیا کہ میرے والد شیخ فانی ہیں سواری پر بیٹھ نہیں سکتے کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کردوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم ان کی طرف سے حج کردو۔


اسی طرح یہ اللہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ حج بدل کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا البتہ اس کی طرف سے یہ حج ادا نہیں ہوگا۔


اس سلسلہ میں فتاوی دینیہ میں حضرت اقدس مفتی اسماعیل صاحب کچھولوی (خلیفۂ اجل حضرت شیخ ذکریا صاحب) نے ایک سوال کے جواب میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلماً… اس بھائی کا اپنے فرض حج میں اپنے والد کے حج بدل کی بھی نیت کرلینا صحیح نہیں ہے، ان کا اپنا فرض حج تو ادا ہو جائے گا، لیکن والد کے ذمہ جو حج کا فریضہ تھا وہ باقی ہی رہے گا۔ حج بدل میں کسی ایسے شخص کو بھیجنا بہتر ہے جس نے پہلے حج کیا ہو، اور حج کے مسائل سے واقف ہو۔

حج بدل کی تین شرطیں ہیں :

(۱) مرحوم پر حج فرض ہو، اور کسی وجہ سے وہ ادانہ کر سکے ہوں ، (۲) اور مرحوم نے وصیت کی ہو کہ اس کے مال سے اس کا حج بدل کروایا جائے، اور مرحوم کے متروکہ مال کے ایک ثلث سے حج کا آنے جانے کا خرچ پورا ہو سکتاہو، تو حج بدل کروانا ضروری ہے۔

اور حج بدل کے صحیح ہونے کے لئے بیس(۲۰) شرائط ہیں ۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرحوم نے اتنامال چھوڑا ہو کہ اس کے ایک ثلث سے مرحوم کے وطن اصلی یا وطن اقامت سے حج بدل میں بھیجنے کا خرچ نکل سکے، اگر ایک ثلث سے خرچ نہ نکل سکتا ہو تو کم از کم میقات سے حج کرنے کا خرچ نکل سکے۔ اگر اتنے بھی روپئے نہ چھوڑے ہوں تو پھر وصیت باطل ہو جائے گی، اور مرحوم کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ نیز ایک شرط یہ بھی ہے کہ حج بدل کرنے والا صرف اس وصیت کرنے والے کی طرف سے ہی حج بدل کرے، اور اس نیت میں اپنے آپ کو یا کسی اور کے حج بدل کو شامل نہ کرے۔ اگر ایک حج میں دو حج کی نیت شامل کرے گا جیسا کہ سوال میں لکھا ہے تو مرحوم کا فرض حج ادا نہیں ہوگا۔ یہ شرائط اس وقت ہیں جب کہ مرحوم نے اپنے مال سے حج بدل کرانے کی وصیت کی ہو۔

اور اگر مرحوم پر حج فرض ہو، لیکن اس نے مرتے وقت وصیت نہ کی ہو، یا متروکہ مال کے ایک ثلث سے حج بدل کا خرچ نہ نکل سکتا ہو، اورکوئی وارث یا کوئی شخص اس کا حج بدل اپنے روپیوں سے کروائے ، تو اس صورت میں وہ جدہ سے (میقات کے باہر سے) کسی شخص کو حج بدل کا احرام پہنا کر مرحوم کی طرف سے حج کروائے تو امید ہے کہ مرحوم کا فرض حج ادا ہو جائے گا۔

مرحوم پر حج فرض ہو، اور مال بھی چھوڑاہو، لیکن حج بدل کی وصیت نہ کی ہو، توورثاء میں سب بالغ ہوں ، اور ورثاء متروکہ مال سے مرحوم کا حج بدل کروانا چاہیں یا کوئی ایک وارث اپنے روپیوں سے مندرجہ بالا طریقہ سے حج بدل کروانا چاہے تو کر سکتاہے، اس صورت میں ورثاء پر حج بدل کروانا ضروری نہیں ہے،البتہ مال چھوڑا ہو تو حج بدل کرا دینا بہتر ہے، تاکہ مرحوم ترک فرض کے گناہ سے سبکدوش ہو سکے۔

حج بدل میں حج افراد کی نیت کرنی چاہئے، روپئے دینے والا قران کی اجازت دے تو قران بھی کر سکتے ہیں ، البتہ قران کی قربانی حج بدل کرنے والے کو اپنے مال سے کرنی ہوگی۔ اور حج بدل میں جانے والا تمتع نہیں کر سکتا، روپئے دینے والے کی اجازت ہو تب بھی تمتع جائز نہیں ہے۔ حنفی کا حج بدل شافعی سے بھی کروا سکتے ہیں ، لیکن بہتر یہ ہے کہ حنفی کا حج بدل حنفی ہی کرے، خلاصہ یہ کہ مرنے والے کی حج بدل اس کی وصیت سے اس کے روپیوں سے کرنے کی صورت میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ نیز جس پر حج فرض ہو لیکن اس نے وصیت نہیں کی البتہ اس کے ورثاء یا کوئی رشتہ دار اس کی طرف سے حج بدل کروا رہا ہو تو اس میں بھی حج بدل کے لئے بھیجنے والے کے فرامین کالحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اور کسی کے طرف سے نفل حج کرنا اس میں فرض حج جتنی قیود نہیں ہے، وہ صرف ایصال ثواب کی حیثیت رکھتاہے۔ (فتاوی دینیہ ٣/١٧٠)


مشکوۃ المصابیح میں ہے۔

عن ابن عباس قال ان امرأة من خثعم قالت یارسول اللہ ان فریضة اللہ علی عبادہفی الحج ادرکت ابی شیخا کبیرا لایثبت علی الراحلہ أفأحج عنہ قال نعم وذالک فی حجة الوداع متفق علیہ (مشکوۃ المصابیح ص: ۲۲۱)

وعنہ قال اتی رجل النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان اختی نذرت ان تحج وانہا ماتت فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکان علیہا دین أکنت قاضیہ قال نعم قال فاقض دین اللہ فہو أحق بالقضاء متفق علیہ (مشکوۃ المصابیح ص: ۲۲۱)


فتاوی شامی میں ہے۔

( قوله صحيح البدن ) أي سالم عن الآفات المانعة عن القيام بما لا بد منه في السفر ، فلا يجب على مقعد ومفلوج وشيخ كبير لا يثبت على الراحلة بنفسه وأعمى ، وإن وجد قائدا ، ومحبوس ، وخائف من سلطان لا بأنفسهم ، ولا بالنيابة في ظاهر المذهب عن الإمام وهو رواية عنهما وظاهر الرواية عنهما وجوب الإحجاج عليهم ، ويجزيهم إن دام العجز وإن زال أعادوا بأنفسهم .

والحاصل : أنه من شرائط الوجوب عنده ومن شرائط وجوب الأداء عند هما وثمرة الخلاف تظهر في وجوب الإحجاج والإيصاء كما ذكرنا وهو مقيد بما إذا لم يقدر على الحج وهو صحيح فإن قدر ثم عجز قبل الخروج إلى الحج تقرر دينا في ذمته ، فيلزمه الإحجاج ، فلو خرج ومات في الطريق لم يجب الإيصاء لأنه لم يؤخر بعد الإيجاب ولو تكلفوا الحج بأنفسهم سقط عنهم وظاهر التحفة اختيار قولهما وكذا الإسبيجابي وقواه في الفتح ومشى على أن الصحة من شرائط وجوب الأداء ا هـ من البحر والنهر ، وحكى في اللباب اختلاف التصحيح وفي شرحه أنه مشى على الأول في النهاية وقال في البحر العميق إنه المذهب الصحيح وأن الثاني صححه قاضي خان في شرح الجامع واختاره كثير من المشايخ ومنهم ابن الهمام ( قوله بصير ) فيه الخلاف المار كما علمته ( قوله غير محبوس ) هذا من شروط الأداء كما مر والظاهر أنه لو كان حبسه لمنعه حقا قادرا على أدائه لا يسقط عنه وجوب الأداء۔ (در المحتار علی در المختار  ٣/٤۵٨)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

والأفضل للإنسان إذا أراد أن يحج رجلا عن نفسه أن يحج رجلا قد حج عن نفسه، ومع هذا لو أحج رجلا لم يحج عن نفسه حجة الإسلام يجوز عندنا وسقط الحج عن الآمر، كذا في المحيط وفي الكرماني الأفضل أن يكون عالما بطريق الحج وأفعاله، ويكون حرا عاقلا بالغا، كذا في غاية السروجي شرح الهداية.

وفیہ ایضاً

من علیہ الحج اذامات قبل اداۂ من غیروصیۃ یأثم بلاخلاف وان احب الوارث ان یحج عنہ حج وأرجو ان یجزۂ ذٰلک ان شاء اللّٰہ کذا ذکر ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وان مات عن وصیۃ لایسقط الحج عنہ واذا حج عنہ یجوز عندنا۔۔۔الخ۔ (الفتاوی الھندیۃ الباب الخامس عشر في الوصية بالحج،  ٢۵٨ ١/٢۵٧)


غنیة الناسك میں ہے۔

ولا یشترط البلوغ والحریة والذكورة، ولا ان یكون قد حج عن نفسه، فیجوز احجاج المراهق والعبد والامة باذن المولی، وكذا المراة باذن زوجها، ووجود محرم معهاولٰكنه یكره احجاجهم الا احجاج الحرة للمراة، ومع هذا الرجل افضل لها

(غنیة الناسك: فصل فیما لیس من شرائط النیابة فی الحج ۳۳۷ ادارة القران کراچی)

وفیہ ایضاً

قال فی الفتح والبحر: والحق أنہا تنزیہیة للاٰمر لقولہم: والأفضل إحجاج الحر العالم بالمناسک الذی حج عن نفسہ حجة الإسلام تحریمیة علی الصرورة المامور إن کان بعد تحقق الوجوب علیہ بملک الزاد والراحلة والصحة؛ لأنہ یتضیق علیہ والحالة ہٰذہ فی أول سنی الإمکان فیأثم بترکہ۔ وکذا فی کافی أبی الفضل: قال: إن کان بعد تحقق الوجوب علیہ بملک الزاد والراحلة والصحة فہو مکروہ کراہة تحریم۔ (غنیة الناسک / باب الحج عن الغیر ۳۳۸إدارة القرآن کراچی) واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: