جمعہ، 6 مئی، 2022

میز پر کھڑے کھڑے کھانے کی دعوت قبول کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٠٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو عید کے موقع پر جو بڑے بڑے لوگ ہیں وہاں لوگ جاتے ہیں عوام جاتی ہے کوئی سید ہے اس کے پاس جاتے ہیں اور کو وٹیرا ہے سردار ہے نواب ہے یا کوئی کونسلر ہے یا اس طرح کوئی وزیر ہے تو وہ مہمانوں کو کھانا یا بسکٹ یا چائے دیتے ہیں لیکن بیٹھنے کا انتظام نہیں کرتے کھڑے میز پر رکھ دیتے ہیں جگہ بھی ہے تو بیچارے جو جانے والے ہوتے ہیں وہ کھڑے ہوکر کھاتے ہیں تو آیا یہ دعوت کررہے ہیں کھانا کھلارہے ہیں تو جو میزبان ہے مہمانوں کو کھلارہے ہیں ان کا انتظام کھڑا کھانے کا کرتے ہیں اور وہ کھڑے ہوکر کھاتے ہیں تو شرعاً یہ کھانا کھلانے والے گنہگار ہوں گے یا نہیں ہوں گے اور کھانا کھانے والے گنہگار ہوں گے یا نہیں ہوں گے شرعاً کیا حکم ہے؟ مدلل جواب عطا فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

سائل: عبد العزیز پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کھڑے ہوکر کھانا پینا جانوروں کا شیوہ ہے، ﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو دوسرے جانوروں اور حیوانات سے امتیازی شان عطا فرمائی ہے، انسانوں کے کھانے اور پینے کی امتیازی شان یہ ہے کہ وہ بیٹھ کر کھائیں؛ اس لئے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بغیر عذر کے کھڑے ہوکر کھانے پینے سے منع فرمایا ہے، حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ آدمی کھڑے ہوکر پیے. حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ہم نے دریافت کیا کہ کھڑے ہوکر کھانے کا کیا حکم ہے؟ تو فرمایا کہ وہ تو اور زیادہ برا ہے۔


اسی طرح کھانے پینے کے آداب میں سے یہ ہے کہ بیٹھ کر کھایا پیاجائے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکابرین وصلحائے امت کا عام معمول بیٹھ کر دسترخوان بچھاکر اس پر کھانا رکھ کر کھانا کھانے کا رہا ہے، عام حالات میں چلتے پھرتے کھانا پینا مکروہ ہے، البتہ مجبوری ہو یا بیٹھنے کی جگہ نہ ہو تو کھڑے ہوکر کھانے کی گنجائش ہے۔


لہذا کھڑے ہوکر کھانے کی عادت بنانا اور تقریبات میں صرف کھڑے ہوکر کھانے کی ترتیب رکھنا اسلامی آداب کے خلاف اور مکروہ ہے، تاہم  اگر کبھی اتفاقاً ایسی نوبت پیش آجائے یا مجبوری وعذر ہو تو کھڑے ہوکر کھانے میں گناہ نہیں ہوگا. ایسی تقریبات کے  عام شرکاء  (جو عملاً اس  انتظام میں شریک نہ ہوں، اور اس پر دل سے خوش بھی نہ ہوں اور وہ مقتدا بھی نہ ہوں وہ) کھڑے ہوکر کھائیں تو ان کے لیے کراہت نہیں ہوگی.


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نیز حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور حضرات اکابر وصلحائے امت کا معمول مبارک اورعادتِ شریفہ بیٹھ کر دسترخوان بچھاکر اس پر کھانا رکھ کر کھانا کھانے کا رہا ہے، بلکہ اب تک ہے آج کل مسلمانوں میں جو اسٹینڈنگ (کھانا کھڑے کھڑے ہوکر کھانے کا) رواج چل پڑا ہے یہ مکروہ ہے۔


مسلم شریف میں ہے: عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم نہی أن یشرب الرجل قائمًا قال قتادة فقلنا فالأکل فقال ذاک أشر وأخبث (کتاب الأشربة في باب کراہیة الشرب قائمًا ج۲ص۱۷۳)


پس شادی وغیرہ جیسی تقریبات کہ جن میں پورا انتظام کھڑے ہوکر کھانے کھلانے کا ہو اور چند کرسیاں رکھ دیتے ہوں ان میں شرکت سے اجتناب ہی کرنا چاہیے اور حکمت وبصیرت سے اس رواج کو بدل کر بیٹھ کر کھانا کھلانے کے انتظام کرنے پر مسلمانوں کو آمادہ کرنا چاہیے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر ١٤٧١۵٩)


صورت مسئولہ میں دعوت میں شرکت کرنا ضروری ہو اور شرکت نہ کرنا باعث فتنہ ہو تو ایسی صورت میں فتنہ سے بچنے کے لئے شرکت کرنا جائز ہے اور بیٹھ کر کھلانے کا جہاں انتظام کیا گیا ہے، وہاں بیٹھ کر کھانا کھاکر واپس آجائے اور مجبوری میں کھڑے ہوکر کھانا کھانے کی صورت میں گناہ داعی پر ہوگا، آپ پر نہیں ہوگا اور اگر دعوت میں شرکت کرنا ضروری نہ ہو اور عدم شرکت باعث فتنہ بھی نہ ہو تو شرکت نہ کریں ورنہ کھڑے ہوکر کھانے کا گناہ کھانے والے پر ہوگا۔


البتہ تفکہات کے قبیل کی معمولی چیزیں جیسے بسکٹ، چائی، چنے، پان وغیرہ چلتے ہوئے کھانے کی بھی گنجائش ہے، حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ پیغمبر علیہ السلام کے زمانہ میں چلتے ہوئے کھاتے پیتے تھے، تو اس کھانے پینے سے مراد ایسی معمولی چیزوں کا کھانا پینا ہے جن کیلئے دستر خوان بچھانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔



مسلم شریف میں ہے۔

عن قتادۃ عن أنس -رضي اﷲ عنہ- عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ نہی أن یشرب الرجل قائما، قال قتادۃ: فقلنا فالأکل، فقال: ذاک أشر أو أخبث۔ (مسلم شریف، کتاب الأشربۃ، باب کراہیۃ الشرب قائما النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۱۷۳، بیت الأفکار، رقم: ۲۰۲٤)


سنن الترمذي میں ہے۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کنا نأکل علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نمشي ونشرب ونحن قیام۔ (سنن الترمذي، أبواب الأشربۃ / باب ما جاء في الرخصۃ في الشرب قائمًا ٢/١٠ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)


تکملۃ فتح الملہم میں ہے۔

وما أن یقال: إن حدیث ابن عمر محمول علی أکلہ لقمۃ أو لقمتین، وأکل أشیاء لا یہتم لہا، وحدیث أنس محمول علی الطعام الذي یؤکل علی المائدۃ، وہذا عندي أوجہ۔ (تکملۃ فتح الملہ ٤/١٢ صحيح ابن حبان ٧/٣٣٢)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

من دعي إلی ولیمۃ فوجد ثمۃ لعبا، أو غناء فلا بأس أن یقعد ویأکل، فإن قدر علی المنع یمنعہم، وإن لم یقدر یصبر، وہذا إذا لم یکن مقتدی بہ، أما إذا کان ولم یقدر علی منعہم، فإنہ یخرج ولا یقعد۔ (ہندیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات جدید زکریا ۵/۳۹۷)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: