ہفتہ، 21 مئی، 2022

دیہات میں جماعت جمعہ کا حکم سوال نمبر ٣٢٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

ایک آدمی  جمعہ کے دن شہر سے ٤٠ کلوميٹر دیہات میں کاروبار کے لیے جاتا ہے وہاں کسی جگہ مسجد نہی ہے اور وہ آدمی ظھر کی نماز ادا کرتا ہے تو اس آدمی پر جمعہ کی نماز نہ ادا کرنے کا گناہ ہوگا کے نہیں اور وہاں مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے اور وہ اکیلا نماز پڑھتا ہے 

سائل: سعیداحمد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احناف کے یہاں صحتِ جمعہ کے لیے کچھ اہم شرطیں ہیں جیسے شہر یا قصبہ یا اس کا فِنا (مضافات) ہونا، ظہر کا وقت ہونا، ظہر  کے وقت میں نمازِ  جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا، جماعت یعنی امام کے علاوہ  کم از   کم تین آدمیوں کا خطبے کی ابتدا سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا، اذنِ عام (عام اجازت اور اذان و اعلان) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔


مسؤلہ صورت میں جس طرح سے وضاحت ہے کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے اور وہ اکیلا نماز پڑھتا ہے اسی طرح وہ دیہات ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہاں پر جمعہ کی شرائط میں سے جماعت کا ہونا اور مصر کا ہونا مفقود ہے  لہذا وہاں اس پر نماز جمعہ کا وجوب ہی متحقق نہیں ہوتا اور جب جمعہ کا وجوب متحقق نہیں ہوا تو اس پر اس کے چھوڑ نے کا گناہ بھی نہیں ہوگا۔


بدائع الصنائع میں ہے

وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١/٢۵٩)


البحر الرائق میں ہے

(قوله والجماعة وهم ثلاثة) أي شرط صحتها أن يصلي مع الإمام ثلاثة فأكثر؛ لإجماع العلماء على أنه لا بد فيها من الجماعة، كما في البدائع، وإنما اختلفوا في مقدارها فما ذكره المصنف قول أبي حنيفة ومحمد، وقال أبو يوسف: اثنان سوى الإمام؛ لأنهما مع الإمام ثلاثة، وهي جمع مطلق؛ ولهذا يتقدمهما الإمام ويصطفان خلفه، ولهما أن الجمع المطلق شرط انعقاد الجمعة في حق كل واحد منهم وشرط جواز صلاة كل واحد منهم ينبغي أن يكون سواه فيحصل هذا الشرط ثم يصلي، ولايحصل هذا الشرط إلا إذا كان سوى الإمام ثلاثة؛ إذ لو كان مع الإمام اثنان لم يوجد في حق كل واحد منهم الشرط بخلاف سائر الصلوات؛ لأن الجماعة فيها ليست بشرط، كذا في البدائع۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق  ۵/١٧١)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: