سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اذان کے بعد سبھی نمازوں میں کتنا فاصلہ رہنا چاہئے؟ مثلا ظہر عصر عشاء وغیرہ میں۔
سائل: ارشد سھارنپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اذان اوراقامت کے درمیان کتنی منٹ کا وقفہ ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں احادیث خاموش ہے، البتہ احادیث میں وقفہ کرنے کی صراحت ضرور ہے حضرت جابرؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول نے حضرت بلالؓ سے فرمایا اپنی اذان اوراقامت کے درمیان اتنا فاصلہ رکھو کہ کوئی شخص کھانا کھارہاہو تو کھالے، پانی پی رہاہو تو پی لے اور ضرورت ہو تو رفع حاجت کرلے۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے( کتاب الصلاۃ باب ماجاء فی الترسل فی الاذان ۱۹۵) لہذا نمازوں میں اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فصل کرنا مسنون ہے کہ کھانا کھانے والا کھانے سے فارغ ہوجائے اور وضو کرنے والا اپنی حاجت سے فارغ ہوجائے یا اتنا فاصلہ ہو کہ جس میں چار رکعات نماز اس طریقہ پر ادا ہوں کہ ہر رکعت میں دس آیات پڑھ لی جائیں اور مغرب میں صرف تین چھوٹی آیات پڑھنے کی بقدر فصل کرنا مسنون ہے اور اذان اور اقامت میں بلاعذر فصل کیے بغیر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
ويفصل بين الأذان والإقامة مقدار ركعتين أو أربع يقرأ في كل ركعة نحوًا من عشر آيات، كذا في الزاهدي. والوصل بين الأذان والإقامة مكروه بالاتفاق، كذا في معراج الدراية. والأولى للمؤذن في الصلاة التي قبلها تطوع مسنون أو مستحب أن يتطوع بين الأذان والإقامة، هكذا في محيط السرخسي. فإن لم يصل يجلس بينهما، وأما إذا كان في المغرب فالمستحب يفصل بينهما بسكتة يسكت قائمًا مقدار ما يتمكن من قراءة ثلاث آيات قصار، هكذا في النهاية. فقد اتفقوا على أن الفصل لا بد منه فيه أيضًا، كذا في العتابية۔ الفتاوى الهندية - ١/۵٦)۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں