منگل، 31 مئی، 2022

پیداوار میں عشر کا حکم سوال نمبر ٣٢٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت ایک کسان نےگہیوں کی فصل بوئی جسمیں خرچ آیا دس ہزار فصل کی پیداوار ہوتی آٹھ ہزار کی تو کیاہ اس کسان پر دسواں حصہ زکوٰۃ یا بیسواں حصہ نکال نہ ضروری ہے براہ مہربانی قرآن اور حدیث کی روشنی میں مع حوالہ کے جواب دیں جزاک اللہ

سائل: عبدالمنان رحیم پور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فقہاء نے جہاں عشری زمین کے مسائل بیان کئے ہیں وہاں یہ وضاحت کی ہے کہ عشر ایک لازمی فریضہ ہے جس میں پیداوار کی جتنی مقدار ظاہر ہو گی اتنی عشر کی مقدار لازم ہوگی، زمین سے جو غلہ نکلتا ہے اس کا عشر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، عشر کے لیے شریعت میں نصاب بھی مقرر نہیں، خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ، دونوں صورتوں میں پیداوار پر عشر لازم ہو گا۔


اور اس میں اس طرح سے وضاحت ہے کہ عشری زمین سال کے اکثر حصہ میں قدرتی آبی وسائل یعنی بارش، ندی، چشمہ وغیرہ سے سیراب کی جائے تو اس میں عشر یعنی کل پیداوارکا دسواں حصہ واجب ہوتا ہے، اور اگر وہ زمین مصنوعی آب رسانی کے آلات ووسائل مثلاً ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی سے یا بورویل سے سیراب کی جائے تو اس میں نصفِ عشر یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہوتا ہے۔ عشر دسواں حصہ یا نصف عشر یعنی بیسواں حصہ کل پیداوار پر لازم ہوتا ہے، عشر یا نصف عشر ادا کرنے سے پہلے قرض وغیرہ یا دیگر اخراجات کی رقم  بھی الگ نہیں کی جاسکتی لہذا جتنا نقصان ہوا ہے اس کا عشر نکالنا اس کے ذمہ واجب نہیں، البتہ جتنی فصل حاصل ہوئی ہے اس کا عشر ادا کرنا واجب ہے۔ 


محیط برہانی میں ہے

يؤخذ العشر من جميع ما أخرجته الأرض، و لايحتسب لصاحبها ما أنفق على الغلة من سقي، أو عمارة، أو أجرة حافظاً، وأجر العمال، ولا نفقة الثغور۔ (المحیط البرہانی: کتاب العشر، الفصل السابع في المتفرقات ٢/٣٣٨،ط.  دار الكتب العلمية، بيروت)


فتاوی ہندیہ میں ہے

ولاتحسب أجرة العمال ونفقة البقر، وكري الأنهار، وأجرة الحافظ وغير ذلك فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشراً أو نصفاً، كذا في البحر الرائق (فتاوی عالمگیری ١/١٨٧ )

ایضاً

ویجب العشر عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ فی کل ما تخرجہ الارض من الحنطۃ والشعیر والدحن والارز واصناف الحبوب والبقول والریاحین والاوراد والرطاب وقصب السکر والذریرۃ والبطیخ والقثاء والخیار والباذنجان والعصفر واشباہ ذلک ممالہ ثمرۃ باقیۃ او غیر باقیۃ قل او کثر۔ (فتاوی ہندیہ میں ہے ۱/۱۸٦ الباب السادس فی زکاۃ الزرع والثمار)


بدائع الصنائع  میں ہے

ومنها أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادةً، فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي؛ لأنّ هذه الأشياء لاتستنمى بها الأرض ولاتستغل بها عادةً؛ لأنّ الأرض لاتنمو بها، بل تفسد، فلم تكن نماء الأرض، حتى قالوا في الأرض: إذا اتخذها مقصبةً وفي شجره الخلاف، التي تقطع في كل ثلاث سنين، أو أربع سنين أنه يجب فيها العشر؛ لأن ذلك غلة وافرة۔ (٢/۵٨ فصل الشرائط المحلیة ط: سعید)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: