جمعرات، 19 مئی، 2022

قرض لیکر حج کیا پھر صاحب نصاب ہوگیا تو پہلے حج کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣١٧

 سوال

مفتی صاحب اگر ایک بندہ پہ حج فرض نہ ہو لیکن پھر بھی وہ ادھار لے کر حج کر لیتا ہے پھر اس بعد وہ شخص بہت مالدار ہو جاتا ہے اب اس پہ دوبارا حج فرض ہوگا یا وہ پہلے والا حج کافی ہوگا

سائل محمد عبداللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


حج کی فرضیت کے لئے استطاعت کا ہونا ضروری ہے یعنی کسی عاقل بالغ مسلمان  شخص کے پاس قرضہ کی رقم  الگ کرنے کے بعد اگر اتنی رقم موجود رہے جس سے زندگی میں ایک بار مکہ مکرمہ تک آنے جانے کے سفر اور وہاں پر کھانے، پینے رہنے اور قربانی وغیرہ کے خرچہ اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے خرچہ کا بندوبست ہوسکتاہے تو ایسے شخص پر حج کرنا فرض ہوجاتاہے موجودہ زمانہ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرض کی رقم  اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے  خرچہ کی رقم الگ کرنے کے بعد حکومت کی طرف سے حج کرنے کے لیے جتنی رقم کا اعلان ہوتا ہے اتنی رقم موجود ہے تو  زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہوجاتا ہے۔


اب اگر کوئی صاحب استطاعت نہیں ہے اس پر حج بھی فرض نہیں ہے اور وہ حج کررہاہے تو دیکھا جائے گا کہ اس نے حج کرتے وقت کیا نیت کی ہے اگر اس نے حج فرض کی نیت سے حج کیا ہو تو اس پر دوبارہ حج کرنا فرض نہیں ہے اگر نفل کی نیت سے حج کیا ہو تو استطاعت ہونے پر دوبارہ حج فرض کرنا ہوگا عالمگیری میں ہے کہ فقیر نے پیدل حج کیا پھر مالدار ہوگیا تو اُس پر دوسرا حج فرض نہیں اسی طرح شامی میں ہے فلو نواہ نفلاً لزمہ الحج ثانیا کہ اگر نفل کی نیت سے حج کیا ہے تو دوبارہ حج لازم ہوگا اور اگر فرض کی نیت سے کیا ہے تو استطاعت کے بعد حج کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔


صورت مسؤلہ میں اگر اس نے فرض حج کی نیت کی ہے تو اس کا فرض حج ادا ہوجائے گا لیکن اگر اس نے نفل کی نیت سے حج کیا ہے تو مالداری کے بعد اس کا لوٹانا ضروری ہے۔


فتاوی عالمگیری میں ہے

(و منها القدرة على الزاد والراحلة) بطريق الملك أو الإجارة دون الإعارة و الإباحة سواء كانت الإباحة من جهة من لا منة له عليه كالوالدين و المولودين أو من غيرهم كالأجانب، كذا في السراج الوهاج. و لو وهب له مال ليحج به لايجب عليه قبوله سواء كان الواهب ممن تعتبر منته كالأجانب أو لاتعتبر كالأبوين و المولودين، كذا في فتح القدير. و تفسير ملك الزاد و الراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، و هو ما سوى مسكنه و لبسه و خدمه، و أثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبًا و جائيًا راكبًا لا ماشيًا و سوى ما يقضي به ديونه و يمسك لنفقة عياله، و مرمة مسكنه و نحوه إلى وقت انصرافه، كذا في محيط السرخسي. و يعتبر في نفقته و نفقة عياله الوسط من غير تبذير و لا تقتير، كذا في التبيين. و العيال من تلزمه نفقته، كذا في البحر الرائق. و لايترك نفقة لما بعد إيابه في ظاهر الرواية، كذا في التبيين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفقير إذا حج ماشياً ثم أيسر لا حج عليه، هكذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية کتاب المناسک باب فی تفسیر الحج وشرائطہ ١/٢٤٠)


فتاوی شامی میں ہے۔

وشرحه أن الفقير الآفاقي إذا وصل إلى ميقات فهو كالمكي في أنه إن قدر على المشي لزمه الحج ولا ينوي النفل على زعم أنه فقير لأنه ما كان واجبا عليه وهو آفاقي، فلما صار كالمكي وجب عليه، حتى لو نواه نفلا لزمه الحج ثانيا اه‍. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخلاف ما لو خرج ليحج عن نفسه وهو فقير، فإنه عند وصوله إلى الميقات صار قادرا بقدرة نفسه فيجب عليه۔ (فتاوی شامی ٤/٢٢)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: