منگل، 24 مئی، 2022

مدرسہ کے مدرس کے لئے مسجد کی بجلی اورپانی وغیرہ استعمال کرنا شرعا کیسا ھے؟ سوال نمبر ٣۲۵

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علماءِ ہذا الفن ومفتیانِ ہذا الزمن مسئلۂ ذیل میں: ہمارے یہاں ایک مدرسہ ہے۔ اور مدرسہ بالکل ابتدائی ہے، یہ مدرسہ دراصل ایک مسجد کا مکتب تھا۔ پھر آہستہ آہستہ حفظ اور اب عربی درجات شروع ہوئے، اور اسی مسجد میں طلبہ کے لیے ایک کونے میں چھوٹا سا کتب خانہ بنایا گیا ہے۔ جو چند الماریوں پر مشتمل ہے، اب ایک مدرس غیر شادی شدہ ہے۔ اس کے طعام کا انتظام تو بستی والے کرتے ہیں، لیکن اس کے قیام کے متعلق اہل مدرسہ نے کہا ہے کہ مسجد میں ہی جو کتب خانہ ہے۔ اس میں قیام کرے اب ظاہر ہے کہ جب وہ وہاں مستقل مقیم ہوگا تو نماز کے علاوہ اوقات میں بھی بجلی وغیرہ کا استعمال کرے گا تو کیا اس کا اس طرح قیام کرنا۔اور مسجد کی بجلی وغیرہ استعمال کرنادرست ہے۔۔؟؟اور اس سلسلہ میں اہل مدرسہ کی یا متولیانِ مسجد کی اجازت معتبر ہوگی یا نہیں ؟؟ بالتفصیل با حوالہ جواب مطلوب ہے ۔۔

سائل عبد المتین احمد آبادی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مساجد میں چندہ دینے والے اگر کسی خاص مصرف کے لیے چندہ دیں تو اس کو اسی مد میں خرچ کرنا ضروری ہے لیکن اگر چندہ دہندہ گان کسی خاص مصرف کی تعیین کئے بغیر چندہ دیں تو اس کو ان کے مطابق مسجد کے مصارف و مصالح میں خرچ کیا جاسکتا ہے البتہ مدرس کے لئے مساجد میں اگر معطین اور ذمہ داران کی طرف سے مدرس کے لیے مذکورہ چیزوں کے استعمال کی اجازت ہو تو جتنی اجازت ہو اتنی استعمال کرسکتے ہیں،

اس سلسلے میں فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں اس طرح سے رہنمائی فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں

سوال

مدرسہ کے مدرس اور مسجد کے امام کے لیے مدرسہ اور مسجد کی بجلی گیس اورپانی گھر میں استعمال کرنا شرعا 5کیسا ھے ؟

جواب

اگر معطین اور ذمہ داران کی طرف سے مدرس کے لیے مذکورہ چیزوں کے استعمال کی اجازت ہو تو جتنی اجازت ہو اتنی استعمال کرسکتے ہیں، یہی حکم مسجد کے امام کے لیے ہے، بلا اجازت درست نہیں۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر ٦٠٧١٣)


فتاوی عالمگیری میں ہے

واذا اراد ان یصرف شیا من ذالک الی امام  المسجد او الی مؤذن المسجد فلیس لہ ذالک الا ان کان الواقف شرط ذالک فی الوقف۔ (الفتاوی الہندیہ الفصل الثانی فی الوقف و تصرف القیم و غیرہ ٢/٤٦٣)


فتاوی شامی میں ہے

قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى۔ ( کتاب الوقف، مطلب في نقل انقاض المسجد ونحوہ، ٦/۵۵١)

ایضاً

على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا۔ (کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین ٦/٦٦۵) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: