پیر، 2 مئی، 2022

قبرستان میں عید کی نماز اداکرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٠٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا قبرستان میں جس جگہ جنازے کی نماز پڑھی جاتی ہے وہاں عید الفطر کی نماز پڑھنا جائز ہے؟ جس پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے وہ جگہ قبرستان سے باہر ہے

سائل اشتیاق عالم گڈاوی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جو جگہ قبرستان کے لیے وقف کردی گئی ہے وہ جگہ مالک کی ملکیت سے نکل چکی ہے اور وہ زمین قبرستان کی ہو گئی ہے اس جگہ کو عیدگاہ میں منتقل کرنا تو جائز نہیں ہوگا البتہ جنازہ گاہ میں عید کی نماز پڑھنے سے نماز ہوجائے گی، کیوں کہ ہر پاک جگہ پر نماز پڑھنا جائز ہے عید کی نماز کے درست ہونے کے لیے عیدگاہ یا مسجد کا ہونا ضروری نہیں ہے، البتہ عیدگاہ میں عید کی نماز پڑھنا سنت ہے، اگر عیدگاہ مستقل طور پر نہ ہو  اور جنازہ گاہ کھلے میدان میں ہو  تو وہاں بھی عید کی نماز پڑھنے سے کھلے میدان میں عید کی نماز پڑھنے کی  سنت ادا ہوجائے گی۔

فتاوی محمودیہ میں ہے کہ جب تک قبرستان کی جگہ پر تدفین کا سلسلہ شروع نہ ہو اس وقت تک کے لیے عارضی طور پر وہاں پر عید کی نماز پڑھنا جائز ہوگا، اس لیے کہ عید کی نماز سال بھر میں صرف دو مرتبہ پڑھی جاتی ہے، اور یہ نماز قبرستان کی زمین پر کنارے کھلی فضا پر کھیتی کی زمین پر کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے، مگر عیدگاہ کے نام پر وقف کو منتقل کرنا درست نہ ہوگا۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ قدیم ۱٤/۳۰٦، جدید ڈابھیل ۱۵/۳٦۳)


طحطاوی میں ہے۔

ولابأس بالصلاۃ فیہا إذا کان فیہا موضع أعد للصلاۃ ولیس فیہ قبر ولانجاسۃ … وأنہا لا تکرہ فی مسجد أعد لہا وکذا فی مدرسۃ و مصلی عید۔ (طحطاوی علی المراقی دار الکتاب دیوبند ۱/۵۹۵، شامی  زکریا ۲/٤۳)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

الخروج إلى الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات۔ (الفتاوى الهندية ١/١٦۵)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

إن المانع ہنا کون المحل موقوفا علی الدفن فلایجوز استعمالہ فی غیرہ۔ (عالمگیری مع حاشیہ قدیم ۲/٤۷۱)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: