سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
ظہر کا ٹائم کتنے مثل پر ختم ہوتاہے مع اختلاف مسٸلہ کے مطلوب ہے، اور اس وقت ظہر کی نماز کا أفضل وقت کونسا ہے،
سائل: محمد عفان مانوتوی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جب سورج ڈھلنا شروع ہوجائے یعنی استواء شمس کے بعد زوال ہوکر سایہ بڑھنا شروع ہوجائے تو ظہر کا وقت شروع ہوجاتا ہے،
البتہ ظہر کے آخری وقت کے سلسلہ میں دو قول ہے۔
پہلا قول
ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال کے بعد سے شروع ہوکر مثلِ اول کے آخر تک ہوتا ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ، اصلی سایہ کے علاوہ اس چیز کے ایک مثل ہوجائے۔
اس کے قائلین یہ حضرات ہے، حضرات ائمہ ثلاثہ، حضرت امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر اور امام طحاوی رحمہم اللہ ان سب حضرات کے نزدیک ایک مثل کے بعد ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے، اور عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے، امام ابوحنیفہؒ کا بھی ایک قول اسی طرح کا ہے۔
دوسرا قول
ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال کے بعد سے شروع ہوکر مثلِ ثانی کے آخر تک ہوتا ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ، اصلی سایہ کے علاوہ اس چیز کے دو مثل ہوجائے۔
یہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کا دوسرا قول ہے جو مشہور ومعروف اور ظاہر الروایہ کے مطابق ہے، یعنی ظہر کا وقت دو مثل کے بعد ختم ہوجاتا ہے اورعصر کا وقت شروع ہوتا ہے، جس پر برصغیر میں عمل ہے، اور امام ابوحنیفہؒ کے اس قول میں احتیاط کا پہلو بھی ہے۔
مفتیٰ بہ قول
ظہر کے آخری وقت اور عصر کے ابتدائی وقت میں مفتیٰ بہ قول یہی ہے کہ ظہر کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوجائے اور اس کے بعد عصر کاوقت داخل ہوتا ہے، لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مثلِ ثانی شروع ہونے سے پہلے پہلے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے،
ظہر کا مستحب وقت
احناف کے نزدیک گرمیوں میں ظہر کی نماز کو تاخیر کے ساتھ ادا کرنا مستحب ہے اور سردی کے ایام میں شروع وقت میں ادا کرنا مستحب ہے کیونکہ اللہ کے رسول کی حدیث ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرمی کے موسم میں نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی ادا فرماتے تھے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔
نوٹ
سایہ اصلی اور ایک مثل یا دو مثل عام لوگوں کے لیے سمجھنا دشوار ہے، اس لیے نمازوں کے اوقات کے سلسلے میں جو جنتری ترتیب دی گئی ہے، اور جو محقق علماءِ کرام سے تصدیق شدہ ہے، اس سے استفادہ کیا جائے ،یعنی موثوق اور معتبر شائع دائمی نقشہ اور گھڑی کے مطابق اوقات نماز کا خیال رکھا جائے۔
فتاوی شامی میں ہے۔
ووقت الظہر من زوالہ) أي میل ذکاء عن کبد السماء إلی بلوغ الظل مثلیہ، وعنہ مثلہ، وہو قولہما وزفر والأئمۃ الثلاثۃ، قال الإمام الطحاوی: وبہ نأخذ۔ وفي غرر الأذکار وہو الماخوذ بہ، وفي البرہان: وہو الأظہر لبیان جبرئیل، وہو نص في الباب، وفي الفیض: وعلیہ عمل الناس الیوم، وبہ یفتی۔
(قولہ: إلی بلوغ الظل مثلیہ) ہذا ظاہر الروایة عن الإمام ”نہایة“ وہو الصحیح ”بدائع“ و”محیط“ و”ینابیع“، وہو المختار ”غیاثیة“ واختارہ الإمام المحبوبی وعول علیہ النسفی وصدر الشریعة ”تصحیح قاسم“ واختارہ أصحاب المتون، وارتضاہ الشارحون، فقول الطحاوی وبقولہما نأخذ لا یدل علی أنہ المذہب، وما فی ”الفیض“ من أنہ یفتی بقولہما فی العصر والعشاء مسلم فی العشاء فقط علی ما فیہ، وتمامہ فی ”البحر“․ ما فی السراج عن شیخ الإسلام أن الاحتیاط أن لا یؤخر الظہر إلی المثل، وأن لا یصلی العصر حتی یبلغ المثلین لیکون مؤدیا للصلاتین فی وقتہما بالإجماع۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ٢/١٤ ط: زکریا)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
ووقت الظهر من الزوال إلى بلوغ الظل مثليه سوى الفيء، كذا في الكافي. وهو الصحيح، هكذا في محيط السرخسي. والزوال ظهور زيادة الظل لكل شخص في جانب المشرق، كذا في الكافي. وطريق معرفة زوال الشمس وفيء الزوال أن تغرز خشبة مستوية في أرض مستوية فما دام الظل في الانتقاص فالشمس في حد الارتفاع، وإذا أخذ الظل في الازدياد علم أن الشمس قد زالت، فاجعل على رأس الظل علامةً، فمن موضع العلامة إلى الخشبة يكون فيء الزوال، فإذا ازداد على ذلك وصارت الزيادة مثلي ظل أصل العود سوى فيء الزوال يخرج وقت الظهر عند أبي حنيفة - رحمه الله -، كذا في فتاوى قاضي خان. وهذا الطريق هو الصحيح، هكذا في الظهيرية. قالوا: الاحتياط أن يصلي الظهر قبل صيرورة الظل مثله، و يصلي العصر حين يصير مثليه؛ ليكون الصلاتان في وقتيهما بيقين".
(الفتاوى الهندية ١/۵١)۔
بخاری شریف میں ہے
عَنِ اَبِیْ سَعِیْد رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَبْرِدُوْابِالظُّھْرِ فَاِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّمِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ۔ (صحیح البخاری ١/٧٧ باب الابراد بالظہر فی شدۃ الحر)
ایضاً
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا کَانَ الْحَرُّ اَبْرَدَ بِالصَّلٰوۃِ وَاِذَا کَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ۔ (سنن النسائی١/٨٧ باب تعجیل الظہر فی البرد،صحیح البخاری١/١٢٤ باب اذا اشتد الحر یوم الجمعہ )۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں