سوال
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
جناب والا کے خدمت سے جاننا چاہتا ہوں کہ میت کے لئے فوت شدہ نمازوں کے عوض فدیہ دینا کیاہے ؟ کیا شریعت میں اس کے کوئی اصل ؟ مع الدلائل مطلوب ہے ۔جزاک اللہ خیرا
سائل: عطاء اللہ بنگلہ دیشی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
عبادات کی تین قسمیں ہے ایک بدنی عبادت جیسے نماز روزہ دوسرے نمبر پر مالی عبادت جیسے زکوۃ تیسرے نمبر پر مالی اور بدنی دونوں پر مشتمل عبادت جیسے حج۔
پہلی قسم کا حکم یہ ہے کہ کوئی بھی آدمی دوسرے کی طرف سے قضا نمازیں اور قضا روزے ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی ادا کرنے سے وہ ادا ہو سکتی ہیں، چاہے دوسرا آدمی زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو۔
اور دوسری قسم کا حکم یہ ہے کہ اگر دوسرے کی اجازت ہو تو اس کی طرف سے ادا کرنے سے ادا ہوجائے گی۔
تیسری قسم استطاعت پر محمول ہے اگر قدرت ہے تو دوسرا ادا نہیں کرسکتا اور اگر قدرت نہیں ہے تو کسی اور سے کرواسکتا ہے
یہ حکم زندہ ہونے کی صورت میں ہے لیکن اگر کسی کا انتقال ہوجائے اور اس پر نمازوں اور روزوں کی قضاء باقی ہے اسی طرح حج کرنا باقی ہے تو فوت شدہ آدمی کے ذمہ واجب الادا نمازوں اور روزوں کی طرف سے فدیہ اور حج بدل ادا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز اور روزوں کے فدیہ اور حج بدل کی وصیت کرجائے اگر اس نے وصیت نہیں کی ہے تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہوگا، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔
اور اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں اور روزے باقی ہوں تو اگر اس نے اپنی قضا نمازوں یا قضا روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی اور حج بدل کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ میں سے قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کریں، اگر ایک تہائی ترکے میں سے تمام قضا نمازوں یا روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے تو بہترہے ورنہ جتنی قضا نمازوں یا روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے وہ ادا کیا جائے ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا،
ایک نماز اور روزہ کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤/١٣)
ایضاً
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله)۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/۵٣٢)
شرح الزيادات میں ہے
العبادات ثلاثة أنواع، منها بدنية لا تعلق لها بالمال كالصوم والصلاة، فلا تجري فيها النيابة بحال. ومنها ما يتعلق بالمال كالزكاة والصدقات، يجوز فيها النيابة على كل حال. ومنها ما يتأدى بالبدن ولها تعلق بالمال أيضا، كالحج، تجوز فيها النيابة عند العجز، ولا تجوز عند القدرة، لأن لها حظا من الشبهين، فكا حكمها بين حكمين. هذا هو ظاهر مذهب أصحابنا، فقد ذكر محمد رحمه الله فيمن يحج عن غيره حجة الإسلام جاز عن المحجوج به، انتهى۔ (قاضي خان في شرح الزيادات ٥/١٥٦٠)
بدائع الصنائع میں ہے
وأما وجوب الفداء فشرطه العجز عن القضاء عجزا لا ترجى معه القدرة في جميع عمره، فلا يجب إلا على الشيخ الفاني، ولا فداء على المريض والمسافر ولا على الحامل والمرضع وكل من يفطر لعذر ترجى معه القدرة، لفقد شرطه، وهو العجز المستدام، وهذا لأن الفداء خلف عن القضاء، والقدرة على الأصل تمنع المصير إلى الخلف، كما في سائر الأخلاف مع أصولها، ولهذا قلنا: إن الشيخ الفاني إذا فدى ثم قدر على الصوم بطل الفداء، انتهى۔ (بدائع الصنائع میں ہے ٢/١٠٥)۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں