بدھ، 18 مئی، 2022

نومولود بچہ مشین میں ہو تو اذان واقامت کہنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣١٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

بچہ مشین میں رکھا ہو اس حالت میں اذان واقامت کہی جاے تو کیا معتبر ہے؟ 

سائل: احتشام سھارن پور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نومولود بچہ یا بچی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون ومستحب ہے، جمہور ائمہ اس کے قائل ہیں، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر ان کے کان میں اذان کہی تھی“ اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے اور فرمایا: سب کا اس پر عمل ہے، اس میں دیر نہ ہو تاکہ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا کلمہ جو بچے کے کان میں پڑے وہ اللہ کا نام ہو، اور اذان و اقامت کی تخصیص اس لیے ہے کہ اذان سے شیطان بھاگتا ہے،اور حدیث میں ہے کہ شیطان ولادت کے وقت بچے کو ستاتا ہے، جس سے بچہ چلاتا ہے، پس ولادت کے فوراً بعد بچے کے کان میں اذان دینا اس لیے بھی ہے، تاکہ شیطان بھاگ جائے اور بچہ کو  پریشان نہ کرسکے۔


لیکن چونکہ اذان واقامت دونوں ذکر الہیٰ ہیں، اس لئے افضل اور بہتر یہی ہے کہ نو مولود بچہ یا بچی کے کان میں اذان واقامت غسل دینے کے بعد کہی جائے اور ولادت پر سب سے پہلے بچہ کو نہلاکر صاف کیا جائے، اور اس کے بعد اذان دینی چاہیے، یہی مسنون طریقہ ہے، اور بچہ جب مشین میں رکھا ہوتا ہے اس حالت میں اس کو غسل نہیں دیا جاتاہے اس لئے ایسی حالت میں اذان واقامت کہنا خلاف اولی ہے لیکن اگر کسی بچے کے غسل سے پہلے ہی مشین میں اذان واقامت کہہ دی گئی تو یہ خلاف افضل ہوگا، البتہ نفس سنت ادا ہوجائے گی، اب غسل کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں۔


فتاوی بنوریہ میں ایک سوال کے جواب میں اس طرح سے تحریر فرماہے کہ نومولود بچے کو پیدائش کے بعد کان میں اذان و اقامت کہنے سے پہلے نہلا دینا چاہیے،  تاکہ اگر پیدائش کے وقت کوئی گندگی نو مولود کے جسم پر لگ گئی ہو تو وہ صاف ہوجائے۔


افضل وبہتر یہ ہے کہ نو مولود بچہ یا بچی کے کان میں اذان واقامت غسل دے کر پاک وصاف ہوجانے کے بعد کہی جائے"۔  (فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۵: ۴۵۷، سوال: ۲۲۵۶، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل، اختری بہشتی زیور ۶: ۱۲ بحوالہ: محمود الفتاوی ۴: ۸۰۷، ۸۰۸) 


نومولود بچے کے کان میں اذان دینا سنت ہے، یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس بارے میں قولی وفعلی دونوں طرح کی احادیثِ مبارکہ موجودہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے: ’’حضرت عبیداللہ بن ابی رافع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کی ولادت کے وقت ان کے کان میں اذان دیتے ہوئے دیکھا جس طرح نماز میں اذان دی جاتی ہے‘‘۔


مظاہر حق شرح مشکاۃ المصابیح میں علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا سنت ہے ۔ مسند ابویعلی موصلی میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطریق مرفوع( یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ) نقل کیا ہے کہ  ’’ جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے، تو اس کو ’’ام الصبیان‘‘ (سوکڑہ کی بیماری)سے ضرر نہیں پہنچے گا‘‘۔ نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہتے وقت وہی الفاظ کہے جائیں گے جو نمازوں کے لیے کہی جانے والی اذان اور اقامت کے وقت ادا کیے جاتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ بچے کوہاتھوں پراٹھاکرقبلہ رخ کھڑے ہوکردائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے، اورحسبِ معمول "حي علی الصلاة" کہتے وقت دائیں طرف اور "حي علی الفلاح"  کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیراجائے۔ فقط واللہ اعلم (دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤١٠۵٢٠١٠٧١)


ترمذی شریف میں ہے

عن عاصم بن عبید اللہ بن رافع عن أبیہ قال: رأیت رسول اللہ ﷺ أذن فی أذن الحسن بن علی حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ۔ (ترمذی، باب الأذان فی أذن المولود، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۷۸ دار السلام)


جامع الفتاوى میں ہے

هذا الحديث فيه دليل للتأذين في أذن المولود الجديد وأما أن يكون هذا التأذين بعد غسله فليس في الحديث ذكر لذلك؛ لكن الفقهاء استحبوه لأنه أقرب إلي  توقير ذكر الله تعالىٰ فلا إشكال في ذلك.(جامع الفتاوىٰ ٣/٣٨٧)


تقریرات رافعی میں ہے

قال السندی: فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن فی أذنہ الیمنی ویقیم فی الیسریٰ، ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار۔ (تقریرات رافعی علی الشامی زکریا ۲/٤۵)


تحفة الاحوذی میں ہے

(وَأُمُّ الصِّبْیَانِ ہِیَ التَّابِعَةُ مِنَ الْجِنِّ) انتہی․․․قولہ: (والعمل علیہ) أی علی حدیث أبی رافع فی التاذین فی أذن المولودعقیب الولادة، فان قلت کیف العمل علیہ؟ وہو ضعیف؛ لأنّ فی سندہ عاصم بن عبیداللہ کما عرفت، قلت: نعم ہو ضعیف؛ لکنّہ یعتضد بحدیث الحسین ابن علیّ الذی رواہ أبو یعلی الموصلی وابن السّنِّی․(تحفة الاحوذی: ۵: ۸۹۔ ۹۰باب الأذان فی أذن المولود/ ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)


سنن أبي داود میں ہے

عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا نودي بالصلاة أدبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع التأذين، الی آخرہ (سنن أبي داود كتاب الصلاة باب رفع الصوت بالأذان)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: