سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب بہت خوشی ہوئی علم جاننے کے لیے اس گروپ کی شدید ضرورت ہے اللہ تعالیٰ آپکی ہر مرادیں پوری فرمائے
سفر میں چھوٹی ہوئی نمازوں کو کس طرح قضاء کی جائے پوری ادا کرنی پڑےگی یا قصر کی قضاء کیجائے ؟
سائل محمد سعید بن یعقوب کھاتوڑا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
سفر میں جو نمازیں قضا ہوئی ہوں ان کی قضا حضر میں یعنی مقیم ہونے کی حالت میں کر سکتے ہیں، اسی طرح حضر میں جو نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کی قضا سفر میں بھی کر سکتے ہیں، البتہ سفرِ شرعی کے دوران جو نمازیں کسی وجہ سے قضا ہوگئی ہوں تو ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نمازیں قصر کے ساتھ دو، دو رکعت ہی قضا پڑھی جائے گی چاہے وہ قضاء سفر کی حالت میں کریں یا اپنے مقام پر رہ کر کریں اور مابقیہ نمازیں پوری پڑھی جائے گی، اور اپنے مقام پر چھوٹی ہوئی نمازیں مکمل پڑھی جائے گی اس میں قصر جائز نہیں ہے چاہے وہ ان نمازوں کی قضاء سفر کی حالت میں کریں۔
فتاوی شامی میں ہے
( والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت ) وهو قدر ما يسع التحريمة ( فإن كان ) المكلف ( في آخره مسافرا وجب ركعتان وإلا فأربع ) لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله۔
(قوله والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس (قوله وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر ، والذي في شرح المنية تفسيره بما لا يبقى منه قدر ما يسع التحريمة وعند زفر بما لا يسع فيه أداء الصلاة (قوله وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيما وقوله : وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافرا بأن كان مقيما في آخره فالواجب أربع . قال في النهر : وعلى هذا قالوا لو صلى الظهر أربعا ثم سافر أي في الوقت فصلى العصر ركعتين ثم رجع إلى منزله لحاجة فتبين أنه صلاهما بلا وضوء صلى الظهر ركعتين والعصر أربعا لأنه كان مسافرا في آخر وقت الظهر ومقيما في العصر (قوله لأنه) أي آخر الوقت . (قوله عند عدم الأداء قبله) أي قبل الآخر۔ (فتاوی شامی ٢/٦١٣) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں