سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
حضرت مفتی صاحب ایک شخص تھک کے چور ہوکر نماز پڑھتا ہے تو نماز میں نہ دھیان رہتا اور نہ قیام میں کیا پڑھا کتنا پڑھا معلوم رہتا ہے تو اس کی وجہ سے نماز کا کیا حکم ہے؟
سائل: محمد ابن رحمۃ اللہ مجادری پالنپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور نماز ادا کرنا فرض ہے‘ اسی طرح ہرنمازی پریہ بھی فرض ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کے دوران قرآن وسنت کے احکام کی پابندی کرے۔ صلوٰة (نماز) کے معنی ہیں: کسی کی جانب رخ کرکے آگے بڑھنا اس کے قریب ہوجانا اور دعاء کرنا۔
گویا اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں اس کے بے پناہ جود و کرم اور فضل و رحمت کی خیرات طلب کرنے کے لئے کمالِ خشوع و خضوع کے ساتھ سراپا التجا بنے رہنے اور اس کے حقِ بندگی بجا لانے کو صلوٰۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہذا نماز کی لفظی ومعنوی حقیقت تین نکات پر مشتمل ہے۔
(١) یہ کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں شعوری طور پر بڑھ کر حاضر ہوجانا
(٢) اللہ تعالیٰ کے حضور ہمہ تن متوجہ ہوجانا۔
(٣) اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوجانا۔
اور یہ نماز مسلمان کے لئے سب سے قیمتی تحفہ ہے جو اسے دیگر مذاہب کے پیرو کاروں سے منفرد و ممتاز بناتی ہے نماز ایسی عبادت ہے جو عابد و معبود کے درمیان احساسِ قربت کا ذریعہ ہے، بندہ مومن جب نماز ادا کرتا ہے تو وہ محض قیام و تلاوت اور رکوع و سجود نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اپنے رب تعالیٰٰ سے ہم کلام ہوتا ہے، یہی انسانی ہستی کی معراج ہے۔
اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ حالتِ نماز میں خشوع و خضوع نہیں رہتا، انسان کا دھیان ادھر ادھر بھٹکنے لگتا ہے، دنیاوی خیالات دل و دماغ کو گھیر لیتے، انسان بظاہر ارکانِ نماز ادا کر رہا ہوتا ہے مگر اس کی توجہ کہیں اور ہوتی ہے۔ نماز میں وساوس یا دنیاوی خیالات کا آنا بہت عام ہے البتہ خیالات کا آنا برا نہیں ہے، قصداً دنیاوی باتوں کی طرف دماغ کو لگانا اور خیالات کو لانا برا ہے نماز میں دنیاوی خیالات یا وساوس آنے سے نماز کی صحت و قبولیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یہ نماز کی عدم قبولیت یا رب تعالٰی کی ناراضگی کا باعث بھی نہیں ہیں۔ تاہم کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مکمل طور پر نماز میں دھیان رہے باقی انسان خیالات جو خود بخود آتے رہے اور نماز میں دھیان نہ رہے تو اس پر وہ ماخوذ نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں فتاوی دارالعلوم دیوبند میں لکھا ہے کہ: خیالات کا آنا برا نہیں ہے، البتہ قصداً دنیاوی باتوں کی طرف دماغ کو لگانا اور خیالات کو لانا برا ہے، اور وظیفہ یہ ہے کہ نماز سے پہلے اچھی طرح تیاری کرکے نماز پڑھنے کی جگہ پہنچ جایا کریں وضو اچھا بنانے کی کوشش کریں، نماز کو مکروہات سے بچانے میں سعی کرتے رہیں سنت کے مطابق پوری نماز ادا کیا کریں ، نماز پڑھی جانے والی قراء ت تشہد درود شریف تسبیحات دعاء وغیرہ غلط نہ پڑھا کریں، اگر ان میں کچھ غلطیاں ہوں تو ان کو امام صاحب سے یا کسی سے اصلاح کرالیں۔ ان امور کا خیال رکھتے ہوئے نماز پڑھیں گے تو خواہ خیالات آتے رہیں تب نماز ان شاء اللہ تعالیٰ قبول ہوگی۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٤٧١٠٧)
اسی طرح فتاوی بنوریہ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ: نماز میں خیالات آنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ نماز میں جان بوجھ کر دنیا کے خیالات لانا منع ہے، غیر اختیاری وساوس اور خیالات آنے پر مؤاخذہ بھی نہیں ہے، البتہ حتی الامکان خیالات اور وساوس کو دفع کرناچاہیے۔جہاں تک ہوسکے قراءت ،اور تسبیح وغیرہ کی ادائیگی اور ان کلمات کے معانی ومفہوم کی جانب دھیان رکھا کریں، نیز اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کاتصور کرکے نماز اداکیا کریں کہ وہ مجھے دیکھ رہاہے، اور جو رکن ادا کررہے ہوں پوری توجہ اس کی طرف ہو، یعنی سنتوں اور مستحبات کی رعایت رکھتے ہوئے اسے ادا کریں اور یہ دھیان ہو کہ اس کے بعد فلاں عمل کرنا ہے، آہستہ آہستہ عادت پختہ ہوجائے گی اور خیالات دور ہوجائیں گے،اپنے ارادہ سے دوسرے طرف خیال نہ کیا کریں۔فقط واللہ اعلم(امدادالاحکام ،جلد اول ،ص:٤٨٧)۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن۔ فتوی نمبر : ١٤٣٩٠٩٢٠١٨٨٣)
مسؤلہ صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ جب تھک کر چور ہوکر نماز پڑھتا ہے تو نماز میں دھیان نہیں رہتا اور قیام میں کیا پڑھا کتنا پڑھا معلوم نہیں رہتا ہے تو وہ چونکہ خیالات کی دنیا میں کھو جاتا ہے اور اسے نماز کے درمیان کچھ معلوم نہیں ہوتا تو چونکہ نماز کے دوران غیر اختیاری طور پر جو خیالات آتے ہیں، اس پر اس کی کوئی پکڑ نہیں ہے اور ان کی وجہ سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، لہذا اس کی نماز درست ہوجائے گی البتہ نمازی کو چاہیے کہ جتنا ہوسکے وہ نماز کی طرف متوجہ رہے۔
شرح الزرقاني میں ہے۔
وحدثني عن مالك أنه بلغه أن رجلا سأل القاسم بن محمد فقال إني أهم في صلاتي فيكثر ذلك علي فقال القاسم بن محمد امض في صلاتك فإنه لن يذهب عنك حتى تنصرف وأنت تقول ما أتممت صلاتي
(مالك أنه بلغه أن رجلا سأل القاسم بن محمد) بن أبي بكر الصديق (فقال إني أهم في صلاتي) أتوهم أني نقصتها ركعة مثلا مع غلبة ظني بالإتمام (فيكثر ذلك علي) بحيث أصير مستنكحا (فقال القاسم بن محمد امض في صلاتك) ولا تعمل على هذا الوهم (فإنه لن يذهب عنك حتى تنصرف وأنت تقول ما أتممت صلاتي) فلا يتهيأ لك أصلا ، قال ابن عبد البر : أردف مالك حديث أبي هريرة بقول القاسم إشارة إلى أنه محمول عنده على المستنكح الذي لا ينفك عنه فلا يعمل عليه۔ (شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك كتاب السهو باب العمل في السهو ١/٣٨٦) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں