سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت اگر بدن پر منی لگی ہوئی ہے اور اس کو پانی سے دھولیا تو کیا وہ پانی ماء مستعمل ہے نیز ماء مستعمل کسے کہتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
سائل: ابوالحارث اتراکھنڈ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
منی ناپاک ہے اگر کپڑے کو لگ جائے تو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے یعنی اس قدر دھونا ضروری ہے کہ مادہ منویہ کا اثر ختم ہوجائے، یا تین بار اس طرح دھوئے کہ ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑلے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں تو کپڑا پاک ہو جائے گا اور جب پانی سے منی کو ڈھویا جائے تو وہ پانی بھی ناپاک ہوئے گا لہذا اس پانی کا استعمال کسی اور چیز میں جائز نہیں ہے۔
جو پانی حدث اصغر یا حدث اکبر کو دور کرنے کے لئے یا قربت کی نیت سے بدن پر استعمال کیا گیا ہو، وہ جب اعضاء سے جدا ہوجائے تو وہ ماءِ مستعمل کہلاتا ہے ماء مستعمل کا حکم یہ ہے کہ وہ پاک ہے، لیکن نجاست حکمیہ کو پاک نہیں کرسکتا، یعنی اس سے وضو اور غسل کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر ماء مستعمل ناپاک چیزوں کو پاک کرنے کے لئے استعمال کیا جائے، تو اس سے ناپاک چیزیں پاک ہوجائیں گی، یعنی اس سے نجاست حقیقیہ کو دور کیا جاسکتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
أخبرنا عمرو بن ميمون الجزري، عن سليمان بن يسار، عن عائشة قالت: كنت أغسل الجنابة من ثوب النبي صلى الله عليه وسلم، فيخرج إلى الصلاة، وإن بقع الماء في ثوبه. وفي حاشيته: (الجنابة) المراد أثرها أو سببها وهو المني۔ (صحيح البخاري، باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب من المرأة، ١/۵۵ قدیم رقم الحدیث: ٢٢٩ ط: دار طوق النجاة)
عمدة القاري شرح صحيح البخاری میں ہے
عن سليمان بن يسار عن عائشة، رضي الله تعالى عنها، قالت: (كنت أغسل المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء لفي ثوبه) . وإسناده صحيح على شرط مسلم۔ (باب غسل المني وفركه وغسل ما يصيب من المرأة، ٣/١٤٦ ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
الجوهرة النيرة علی مختصر القدوری میں ہے:
(قوله: والمني نجس) وقال الشافعي: طاهر لقوله عليه السلام لابن عباس: المني كالمخاط فأمطه عنك، ولو بإذخرة» ولأنه أصل خلقة الآدمي فكان طاهرًا كالتراب، ولنا «قوله عليه السلام لعمار بن ياسر وقد رآه يغسل ثوبه من نخامة: "إنما يغسل الثوب من خمس: من البول والغائط والدم والمني والقيء" فقرن المني بالأشياء التي هي نجسة بالإجماع فكان حكمه كحكم ما قرن به، وأما حديث ابن عباس فهو حجة لنا؛ لأنه أمره بالإماطة والأمر للوجوب كذا في النهاية ولأنه خارج يتعلق بخروجه نقض الطهارة كالبول ثم نجاسة المني عندنا مغلظة (قوله: يجب غسل رطبه فإذا جف على الثوب أجزأ فيه الفرك) قيد بالثوب؛ لأنه إذا جف على البدن ففيه اختلاف المشايخ قال بعضهم: لايطهر إلا بالغسل؛ لأن البدن لا يمكن فركه۔ (کتاب الصلاۃ، باب الانجاس، ١/٣٧ ط: المطبعة الخيرية)
فتاویٰ شامی میں ہے
(ولايجوز)۔۔۔۔بماء (استعمل ل) أجل (قربة) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من مميز أو حائض لعادة۔۔۔۔(وهو طاهر) ولو من جنب وهو الظاهر۔۔۔(و) حكمه أنه (ليس بطهور) لحدث بل لخبث على الراجح المعتمد.
(قوله: على الراجح) مرتبط بقوله بل لخبث: أي نجاسة حقيقية، فإنه يجوز إزالتها بغير الماء المطلق من المائعات۔ (الدر المختار مع رد المحتار ١/٣٤٨)
محيط برهاني میں ہے
يجب أن يعلم أن الماء الراكد إذا كان كثيراً فهو بمنزلة الماء الجاري لا يتنجس جميعه بوقوع النجاسة في طرف منه إلا أن يتغير لونه أو طعمه أو ريحه. على هذا اتفق العلماء، وبه أخذ عامة المشايخ، وإذا كان قليلاً فهو بمنزلة الحباب والأواني يتنجس بوقوع النجاسة فيه وإن لم تتغير إحدى أوصافه۔ (المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة ١/٨٧)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں