سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔
کیا فرماتے ہیں علماء ہذا الفن ومفتیان ہذا الزمن مسئلۂ ذیل میں اجنبی غیر محرم کی آواز میں آڈیو نعت سننا کیسا ہے؟ مفصل مدلل با حوالہ جواب مطلوب ہے۔۔۔بینوا وتوجرو۔۔
سائل: مولوی عبد المتین احمدآبادی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
عورت کی آواز کے بارے میں اگر چہ فقہائےکرام کا اختلاف ہے، لیکن صحیح قول کے مطابق عورت کی آواز اپنی اصل کے اعتبار سے ستر میں داخل نہیں ہے، لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف و مشہور ہے، اِس لیے اگر شرعی ضرورت نہ ہو تو چوں کہ فتنہ کا غلبہ ہے، اس لیے عورت کی آواز کا بھی غیر محرم سے پردہ ہے۔
لہذا بلا ضرورت عورت کا اپنی آواز مردوں تک پہنچانے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح مردوں کے لیے بھی بلا ضرورت اجنبیہ عورت کی آواز سننے سے اجتناب کرناہے، اور اگر عورت کی آواز سننے سے لذت محسوس ہوتی ہو یا فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو عورت کی آواز سننا جائز نہیں ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی کتاب امداد الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں عدم جواز کو تحریر فرمایا ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
سوال : میں نے اپنے گھر میں عرصہ سے تجوید بقدر احتیاج سکھائی ہے، اللہ کا شکرہے باقاعدہ پڑھنے لگی ہیں، جن لوگوں کو اِس اَمر کی اِطلاع ہے وہ کبھی آکر یوں کہتے ہیں کہ ہم سننا چاہتے ہیں، اور ہیں معتمد لوگ تو پردہ میں سنوا دینا جائز ہے یا نہیں ؟ اگرچہ ایسا کیا نہیں، بعد علم جیسا ہوگا ویسا کروں گا۔
الجواب: ہرگز جائز نہیں لِاَنَّه اِسْمَاعُ صَوْت الْمَرْأَةِ بِلا ضرورة شرعیة( کیونکہ یہ عورت کی آواز کو بغیر شرعی ضرورت کے سنانا ہے)۔ (امداد الفتاوی، ٤/٢٠٠ ط: دارالعلوم کراچی)
صورتِ مسئولہ میں مردوں کو اگر اس سے لذت محسوس ہوتی ہو یا فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو ان کے لیے خواتین کی آواز میں نعتیں سننا جائز نہیں ہوگا، چوں کہ فتنہ کے اندیشہ کا غلبہ موجود ہے، اور عورت کی آواز میں نعتیں سننے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، اس لیے مردوں کے لیے نامحرم عورتوں کی آواز میں نعتیں سننے سے اجتناب کرنا ضروری ہے
اصل مقصد فتنہ کے دروازوں کو بند کرنا ہے،جہاں غیر محرم تک آواز پہنچنے اورپہنچانے میں فتنہ کا اندیشہ ہو، وہاں اس سے احتیاط کرنا واجب ہے۔
فتاوی شامی میں ہے۔
قوله: (وصوتها) معطوف على المستثنى: يعني أنه ليس بعورة ح. قوله: (على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر: وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوال: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء فلا يحسن أن يسمعها الرجل اه. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لان صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الاذان. بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لاعلام الامام بسهوه إلى التصفيق ا ه. وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الامداد، ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لان ذلك ليس بصحيح، فإنا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها، لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة ا ه. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة۔ (فتاوی شامی ٢/٧٨)
فتاوی شامی میں ہے۔
(ولا تلبي جهرا) بل تسمع نفسها دفعا للفتنة؛ وما قيل إن صوتها عورة ضعيف (قوله دفعا للفتنة) أي فتنة الرجال بسماع صوتها (قوله وما قيل) رد على العيني۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين-رد المحتار: ٣/٥٥١)
الأشباه والنظائر میں ہے۔
وصوتها عورة في قول في شرح المنية الأشبه أن صوتها ليس بعورة وإنما يؤدي إلى الفتنة وفي النوازل نغمة المرأة عورة وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى ولذا قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال والتصفيق للنساء فلا يجوز أن يسمعها الرجل كذا في الفتح۔ (الأشباه والنظائر على مذاهب أبي حنيفة النعمان ٣/٣٨)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں