اتوار، 1 مئی، 2022

نماز عید کا مکمل طریقہ کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٠۵

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

عید کی نماز کا کیا طریقہ ہے اور نیت کیسے کریں؟ مکمل واضح فرمائیں اور تکبیرات عیدین کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟ اسی طرح اگر تکبیرات یا رکعتیں چھوٹ جائے تو کب اور کیسے ادا کریں؟ مکمل تفصیل کے ساتھ با حوالہ جواب ارسال فرمائیں آپ کی بری مہربانی ہوگی

سائل: حافظ محمد حنیف اندوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عید الفطر کی نماز کا طریقہ

عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں ہے، باقی نماز عید کی دو رکعت کا طریقہ وہی ہے جونماز فجر کا ہے البتہ اس میں نماز عید کی نیت کی جائے گی اور پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور قراء ت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قراءت کے بعد اور رکوع سے پہلے تین، تین تکبیرات زوائد کہی جائیں گی۔


نماز عید کی نیت

جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز  چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، جس کے لیے دل میں یہ ارادہ واستحضار کافی ہے کہ وہ قبلہ کی طرف رخ کرکے امام کی اقتدا میں نماز عید ادا کرنے جارہاہے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر امام ہو تو اس کے لیے امامت کی نیت افضل ہے اور اگر کوئی شخص مزید استحضار و پختگی کے لیے نیت کے الفاظ زبان سے بھی کہہ لے تو یہ افضل ہے۔اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لیے جائیں،


پہلی رکعت کی تکبیرات

اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ  وغیرہ) دیگر  نمازوں کی طرح ادا کرے۔


دوسری رکعت کی تکبیرات

پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام  دو خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ 


پہلی رکعت کی زائد تکبیریں چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے۔

جو شخص عیدین کی نماز میں امام کے تکبیرات زوائد کہنے کے بعد شامل ہو اور اس کی پہلی رکعت کی تکبیرات چھوٹ گئی ہوں تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کہنے کے فوراً بعد تکبیراتِ زوائد کہہ لے، اگرچہ امام قرأت شروع کر چکا ہو، اور اگر امام رکوع میں ہو  تو اگر اس کا غالب گمان یہ ہے کہ زائد تکبیرات کہہ کر رکوع میں امام کو پالےگا تو قیام کی حالت میں زائد تکبیرات کہہ کر رکوع میں جائے اور اگر امام کے ساتھ رکوع فوت ہونے کا خطرہ ہو تو رکوع میں چلا جائے اور رکوع ہی کی حالت میں زائد تکبیرات کہے اور اگر زائد تکبیرات مکمل ہونے سے پہلے امام رکوع سے اٹھ جائے  تو بقیہ تکبیرات چھوڑ دے اور امام کی اتباع کرے۔


ایک رکعت فوت ہونے کے بعد شریک ہو۔

اگر عیدین کی نماز میں کسی کی پہلی رکعت چھوٹ جائے تو وہ امام کے سلام کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر تین تکبیرات زوائد کہہ کر رکوع کرے، اور بقیہ نماز پوری کرے۔ فتویٰ اسی پر ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ وغیرہ نے یہی طریقہ لکھاہے۔


دونوں رکعتیں فوت ہونے کے بعد شریک ہو۔

دوسری رکعت میں امام کے رکوع سے اٹھ جانے کے بعد جماعت میں شریک ہوا تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد دونوں فوت شدہ رکعتوں کی اسی ترتیب پر قضا کرے جس ترتیب پر امام کے ساتھ عید  کی نماز ادا کی جاتی ہے۔


دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیر کا حکم

عیدین کی نمازکی دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر اگرچھوٹ جائے توسجدہ سہوواجب ہوگا، فتاویٰ ہندیہ میں مذکورہے کہ اگرعید کی نمازمیں دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیرچھوڑدی توسجدہ سہو واجب ہوگا،اس لیے کہ یہ دوسرے رکوع کی تکبیر عید کی تکبیرات واجبہ کے ضمن میں واجب تھی، برخلاف پہلی رکعت کی تکبیرکے، اس لیے کہ پہلی رکعت میں تکبیرات واجبہ شروع میں قرأت سے پہلے ہی اداکردی جاتی ہیں۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے۔

الدر المختار (ولو أدرك) المؤتم (الإمام في القيام) بعدما كبر (كبر) في الحال برأي نفسه لأنه مسبوق، ولو سبق بركعة يقرأ ثم يكبر لئلا يتوالى التكبير (فلو لم يكبر حتى ركع الإمام قبل أن يكبر) المؤتم (لا يكبر) في القيام (و) لكن (يركع ويكبر في الركوع) على الصحيح لأن للركوع حكم القيام فالإتيان بالواجب أولى من المسنون (كما لو ركع الإمام قبل أن يكبر فإن الإمام يكبر في الركوع ولا يعود إلى القيام ليكبر) في ظاهر الرواية فلو عاد ينبغي الفساد (ويرفع يديه في الزوائد) وإن لم ير إمامه ذلك (إلا إذا كبر راكعا) كما مر فلا يرفع يديه على المختار لأن أخذ الركبتين سنة في محله


 (قوله: في القيام) أي الذي قبل الركوع، أما لو أدركه راكعا فإن غلب ظنه إدراكه في الركوع كبر قائما برأي نفسه ثم ركع، وإلا ركع وكبر في ركوعه خلافاً لأبي يوسف، ولا يرفع يديه؛ لأن الوضع على الركبتين سنة في محله، والرفع لا في محله، وإن رفع الإمام رأسه سقط عنه ما بقي من التكبير؛ لئلا تفوته المتابعة، ولو أدركه في قيام الركوع لا يقضيها فيه؛ لأنه يقضي الركعة مع تكبيراتها، فتح وبدائع (قوله: كبر في الحال) أي وإن كان الإمام قد شرع في القراءة، كما في الحلية (قوله : برأي نفسه إلخ) أي ولو كان إمامه شافعياً كبر سبعاً، فإنه يكبر ثلاثاً، بخلاف ما مر من أنه يتابعه في المأثور؛ لأنه في المدرك (قوله: لأنه مسبوق) أي وهو منفرد فيما يقضي، والذكر الفائت يقضى قبل فراغ الإمام بخلاف الفعل، فتح.


قلت: فعلى هذا إذا أدرك مع الإمام ما لا ينقص عن رأي نفسه ينبغي أن لا يقضي بعده شيئاً فتنبه له. اهـ. حلية (قوله : يقرأ ثم يكبر) أي إذا قام إلى قضائها، أما الركعة التي أدركها مع الإمام فينبغي أن يجري فيها التفضيل المار من إدراكه كل التكبير أو بعضه أولا ولا كما أفاده في الحلية (قوله: لئلا يتوالى التكبير) أي لأنه إذا كبر قبل القراءة وقد كبر مع الإمام بعد القراءة لزم توالي التكبيرات في الركعتين، قال في البحر: ولم يقل به أحد من الصحابة، ولو بدأ بالقراءة يصير فعله موافقاً لقول علي - رضي الله عنه - فكان أولى، كذا في المحيط، وهو مخصص لقولهم: إن المسبوق يقضي أول صلاته في حق الأذكار. اهـ. 


تنبيه قد علمت أن المسبوق يكبر برأي نفسہ، أما اللاحق فإنه يكبر على رأي إمامه؛ لأنه خلف الإمام حكماً، بحر عن السراج (قوله: فلو لم يكبر إلخ) مرتبط بقوله: ولو أدرك الإمام في القيام (قوله: قبل أن يكبر المؤتم) يغني عنه ما قبله فالأولى حذفه (قوله : ويكبر في الركوع على الصحيح) كذا قاله المصنف في منحه، ويخالفه قول البحر: ولو أدركه في القيام فلم يكبر حتى ركع لا يكبر في الركوع على الصحيح اهـ ومثله في النهر، وذكر في الحلية: قيل: يكبر في الركوع، وقيل: لا وقواه في المحيط اهـ قال ط: كأنه لأن التقصير جاء من جهته (قوله: فالإتيان بالواجب) وهو التكبير أولى من المسنون وهو التسبيح، وقد علمت ما فيه ط وفسر الرحمتي الواجب بالمتابعة والمسنون بالإتيان بالتكبير في محض القيام: أي لأن التكبير يكفي إيقاعه في الركوع، لكن كونه في محض القيام سنة، تأمل (قوله: في ظاهر الرواية) تبع فيه المصنف في المنح. والذي في البحر والحلية أن ظاهر الرواية أنه لا يكبر في الركوع ولا يعود إلى القيام، زاد في الحلية: وعلى ما ذكره الكرخي ومشى عليه في البدائع وهو رواية النوادر يعود إلى القيام ويكبر ويعيد الركوع دون القراءة اهـ وهذه الرواية أيضاً تخالف ما في المتن۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٣/۵٦)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

قال محمد - رحمه الله تعالى - في الكبير: ولو أن رجلاً دخل مع الإمام في صلاة العيد في الركعة الأولى بعدما كبر الإمام تكبير ابن عباس - رضي الله تعالى عنهما - ست تكبيرات، فدخل معه وهو في القراءة والرجل يرى تكبيرات ابن مسعود - رضي الله عنهما - فإنه يكبر برأي نفسه في هذه الركعة حال ما يقرأ الإمام، وفي الركعة الثانية يتبع رأي الإمام، كذا في التتارخانية. ولو انتهى رجل إلى الإمام في الركوع في العيدين فإنه يكبر للافتتاح قائماً، فإن أمكنه أن يأتي بالتكبيرات ويدرك الركوع فعل، ويكبر على رأي نفسه، وإن لم يمكنه ركع واشتغل بالتكبيرات عند أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، هكذا في السراج الوهاج. ولا يرفع يديه إذا أتى بتكبيرات العيد في الركوع، كذا في الكافي، ولو رفع الإمام رأسه بعدما أدى بعض التكبيرات فإنه يرفع رأسه ويتابع الإمام وتسقط عنه التكبيرات الباقية، كذا في السراج الوهاج. ولو أدركه في القومة لا يقضي فيها؛ لأنه يقضي الركعة الأولى مع التكبيرات۔ (الفتاوى الهندية ١/١۵١)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ولو ترك تكبيرة الركوع الثاني في صلاة العيد وجب عليه السهو ؛ لأنها واجبة تبعا لتكبيرات العيد بخلاف تكبيرة الركوع الأول ؛ لأنها ليست ملحقة بها ، كذا في التبيين السهو في الجمعة والعيدين والمكتوبة والتطوع واحد إلا أن مشايخنا قالوا لا يسجد للسهو في العيدين والجمعة ؛ لئلا يقع الناس في فتنة۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٤١)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: