پیر، 23 مئی، 2022

قرآن حدیث کے انکار کرنے والے اور ظالم والدین سے رشتہ رکھنے کا شرعی حکم سوال نمبر ٣٢٣

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

(1) ایک خاتون جو کہ مسلمان ہے اس نے ترکہ کے مسئلے کو لے کر پنچ حضرات کے درمیان کہہ دیا کہ میں قرآن اور حدیث کو نہیں مانتی تو اب اس کا کیا حکم ہے ؟ 

(2) اسی خاتون کے چھ بچے ہیں اور جو اس کا خاوند تھا اس کی تقریباً چالیس کروڑ روپے کی پراپرٹی اور جائداد وغیرہ تھی اس عورت نے صرف اپنے ایک بیٹے کے نام پر ساری جائداد کر دیا اور باقی تمام بچوں کو سینٹرل جیل میں قید کروا دیا !

 اب کیا یہ بچے اپنی والدہ سے تعلق رکھیں ؟

 ان کے لیے کیا حکم ہے ؟ یا پھر وہ ایسی ظالم سگی والدہ سے قطع تعلق کر لیں؟

سائل: عبداللہ مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کوئی شخص زبان سے اللہ تعالی کی ذات و صفات کے بارے میں کوئی توہین آمیز گفتگو کرے، یا انبیاء علیہم الصلاة والسلام کی شان میں گستاخی کرے، یا ضروریات دین یعنی جن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے اس کا انکار کرے تو انسان ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، ایمان کے بقاء کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کی ہر ہر آیت پر ایمان لانا فرض ہے جان بوجھ  کر قرآن کریم کی کسی ایک آیت کا بھی انکار کرنے سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، لہذا ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ صدقِ دل سے توبہ واستغفار کے ساتھ  تجدیدِ ایمان کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی کرے، اور آئندہ بہت احتیاط سے گفتگو کرے۔

 

وراثت کے مال میں جب شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کی مکمل پروپرٹی اس کی اولاد میں تقسیم ہوگی کسی ایک کے نام کرنا جائز نہیں ہے اور ایسا کرنے سے وہ مالک بھی نہیں ہوگا، اس کا وبال اور سزا کے وہ حقدار ہوں گے باقی تمام بچوں کو سینٹرل جیل میں قید کروانے سے مزید ظلم و زیادتی کا گناہ سرپر ہوگا۔


البتہ صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے تعلقات استوار رکھنا، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، گاہ بگاہ ان سے ملاقات کرنا اِسلام کا ایک اہم حکم ہے، احادیث میں صلہ رحمی کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور رشتہ ناطہ توڑنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، اور قطع تعلق کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اگر کوئی شخص اپنے والدین ہی سے قطع تعلق کرلے تو اس گناہ کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے، صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے  کہ رحم(یعنی رشتہ داری) کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے،اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ پس جو تجھے جوڑے گا ( یعنی صلہ رحمی کرے گا) میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لوں گا اور جو کوئی تجھے توڑے گا(یعنی قطع رحمی کرے گا)  میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لوں گا، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رشتے ناتے توڑنے والا جنت میں نہیں جائےگا۔


اور اسلام میں فاسق و فاجر شخص سے قطع تعلق کی گنجائش اس وقت دی گئی ہے جب کہ اصلاح کے دیگر ذرائع اختیار کئے جاچکے ہوں اور قطع تعلق سے اصلاح کی امید ہو، اگر یہ اندیشہ ہو کہ قطع تعلق سے مزید خرابی ہوگی تو تعلقات کی بحالی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرتے رہنا اور نصیحت جاری رکھنا چاہیے۔ البتہ جہاں تعلق کی بحالی کی صورت میں اس کی اصلاح کے بجائے اپنے (دینی یا دنیوی) نقصان کا اندیشہ ہو، وہاں بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت قطع تعلق کی گنجائش ہوتی ہے۔


مسؤلہ صورت میں قرآن وحدیث کا انکار کردینا یہ اسلام سے محرومی کا سبب ہے اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق وہ خارج از اسلام ہے وہ اپنے اس فعل قبیح سے توبہ کریں اور تجدیدِ ایمان کرے، البتہ ان کے ان افعال قبیحہ کی وجہ سے ان کے ساتھ قطع تعلق کا !عاملہ نہ کیا جائے بلکہ معاملہ استوار رکھتے ہوئے ان کو صحیح راہ کی طرف گامزن کرنے کی کوشش اور دعاء کرتارہے اور اگر تعلق بحال رکھنے میں دینی یا دنیوی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو شریعت نے ایسی صورت میں قطع تعلق کی گنجائش دی ہے۔


البحر الرائق میں ہے

ویکفر إذا أنکر آیةً من القرآن۔ ( البحر الرائق : باب أحکام المرتدین ۵/٢٠۵)


شرح الفقه الأکبر میں ہے

أنکر آیةً من القرآن کفر۔ ( شرح الفقه الأکبر لملا علي القاری ص: ١٦٧)(وكذا في الفتاوى الهندية، ٢/٢٦٦ رشیدیه) 


فتاوی شامی میں ہے

وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل و النکاح۔۔۔الخ۔ (رد المحتار ٢/٢٤٦ ط: دار الفکر)


فتاوی عالمگیری میں ہے

من شك في إيمانه، وقال: أنا مؤمن إن شاء الله، فهو كافر إلا إذا أول، فقال: لا أدري أخرج من الدنيا مؤمنا، فحينئذ لا يكفر، ومن قال بخلق القرآن، فهو كافر، وكذا من قال بخلق الإيمان فهو كافر ومن اعتقد أن الإيمان والكفر واحد فهو كافر ومن لا يرضى بالإيمان فهو كافر كذا في الذخيرة۔۔۔يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكا، أو ولدا، أو زوجة، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص ويكفر بقوله يجوز أنخ يفعل الله تعالى فعلا لا حكمة فيه ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر كذا في البحر الرائق.

فتاوی عالمگیری ٢/٢۵٧ ط: دار الفکر)


فتح الباری شرح صحیح البخاری  میں ہے

أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها۔ (قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، ١٠/٤٩٧ ،ط:دارالمعرفۃ بیروت)


مشکاة المصابیح مع المرقاة

قال الخطابی: رخص للمسلم أن یغضب علی أخیہ ثلاث لیال لقلتہ، ولایجوز فوقہا إلا إذا کان الہجران فی حق من حقوق اللہ تعالی، فیجوز فوق ذلک. وفی حاشیة السیوطی علی الموطأ، قال ابن عبد البر: ہذا مخصوص بحدیث کعب بن مالک ورفیقیہ، حیث أمرصلی اللہ علیہ وسلم أصحابہ بہجرہم، یعنی زیادة علی ثلاث إلی أن بلغ خمسین یوما. قال: وأجمع العلماء علی أن من خاف من مکالمة أحد وصلتہ ما یفسد علیہ دینہ أو یدخل مضرة فی دنیاہ یجوز لہ مجانبتہ وبعدہ (مشکاة المصابیح مع المرقاة، رقم: ۵٠٢٧)


 عارضۃ الاحوذی میں ہے:

وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجره حتى  ينزع عن فعله وعقده ، فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلةً حتى صحّت توبتهم عند الله، فأعلمه فعاد إليهم۔ (عارضۃ الأحوذي لابن العربي المالکي ٧/١١٦ أبواب البر والصلة، ط: دارالکتب العلمیة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


 العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: