جمعہ، 29 اپریل، 2022

مارکیٹ میں جو رےڈیمیٹ مہندی کے کون بکرہے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٠٣

 سوال

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ کہ آج کل مارکیٹ میں جو مہندی کے کون بکرہے ہیں (یعنی رےڈیمیٹ مہندی )کیا اسکو لگا کر وضو اور غسل نہی ہوتا ؟ واٹسپ پر ایک مفتی صاحب کی اوڈیو چل رہی ہے کہ اسکو لگاکر وضو اور غسل نہی ہوگا جسکی بناپر نماز وغیرہ بھی نہی ہونگی ۔تحقیقی جوا ب ارسال کریں۔

سائل محمد ارشاد بھوپال


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ہر قسم کی مہندی لگانا جائز ہے البتہ مہندی خریدتے وقت اور لگانے کے بعد ان چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔


مہندی میں کوئی ناپاک چیز ملی ہوئی نہ ہو اگر ناپاک چیز ملی ہوئی ہوگی تو اس کا لگانا درست نہیں ہوگا، اور جب تک تحقیق سے مہندی میں کسی حرام اور نجس شے کے ملنے کا یقین نہ ہو، اس وقت تک بازار سے ملنے والی مہندی کا لگانا ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا۔


مہندی لگانے کے بعد اس کی پرت نہ جم جائے اگر مہندی ایسی ہو کہ جس کے لگانے کے بعد پرت جم جائے، جس سے پانی بالوں تک نہ پہنچ سکے، تو ایسی مہندی لگانے کے بعد وضوء اور غسل صحیح نہیں ہوگا۔


لگائی ہوئی مہندی کو اچھی طرح سے صاف کرلیا جائے اگر ہاتھ پر مہندی لگانے کے بعد اس کو اتارا نہ جائے اور وہ سوکھ جائے تو وہ کھال تک پانی پہنچنے سے مانع ہوگا، لہٰذا اس کے ساتھ وضو درست نہیں ہوگا وضو کرنے سے پہلے اس کا اتارنا ضروری ہے، اسی طرح لگاتے وقت اگر ناخن وغیرہ میں داخل ہوجائے تو اس کو نکالنا بھی ضروری ہے۔


مسؤلہ صورت میں مارکیٹ میں بکنے والی مہندی اوپر بتائے ہوئے شرائط کے مطابق ہو تو اس کو لگا کر وضو اور غسل درست ہوجائے گا اور مہندی لگانے کے بعد جب اس کو اتارلیا جائے اور اس کے بعد اس کا رنگ باقی رہ جائے تو اس کی موجودگی میں نماز کی ادائیگی بھی درست ہے، 


اس سلسلہ میں فتاوی بنوریہ کا ایک سوال مع جواب کے پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔


سوال

 کس قسم کی مہندی لگانا جائز ہے؟ آج کل مارکیٹ میں ایسی مہندی کون آئی ہوئی ہیں جو پپڑی بن کر جسم سے علیحدہ ہوتی ہے تو ایسی مہندی کے ساتھ وضو ہو جاۓگا ؟


جواب

ہر قسم کی مہندی لگانا جائز ہے بشرطیکہ  مہندی میں کوئی ناپاک چیز ملی ہوئی نہ ہو، مہندی لگانے کے بعد وضو اور غسل وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ مہندی لگانے یا رنگنے سے جو رنگ لگا رہ جائے اس سے وضو اور غسل وغیرہ میں خلل نہیں آتا، البتہ اگر جمی ہوئی مہندی خشک ہوجائے اور ہاتھ پر جمی رہ گئی تو اس پر وضو صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ وہ جسم پر پانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں بعض مہندیاں ایسی ہیں کہ لگانے کے بعد جب ہاتھ دھولیتے ہیں تو رنگ کے ساتھ ساتھ ایک باریک جھلی نما تہہ بن جاتی ہے اور بعد میں جب رنگ اترنے لگتا ہے تو ایک باریک تہہ چھلکا بن کر الگ ہوجاتی ہے، ایسی مہندی لگاکر وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا ؛ کیوں کہ وہ جسم تک پانی پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی ہے، بشرطیکہ نفسِ مہندی کو دھو کر زائل کرلیا ہو اور صرف رنگ باقی رہ گیا ہو۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن  جواب نمبر۔ ١٤٣٩٠٩٢٠٠٦٩٤)


فتاوی شامی میں ہے۔

"(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه، به يفتى۔

(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ١/٢٨٨)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

"في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة  أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز۔

وفي الجامع الصغير: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ؟ قال: كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لايستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي، كذا في الذخيرة. وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار، كذا في الزاهدي ناقلاً عن الجامع الأصغر۔

والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل، كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز۔ (الفتاوى الهندية كتاب الطهارة، الباب الاول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء ج ١ص٦) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: