جمعہ، 29 اپریل، 2022

مارکیٹ میں جو رےڈیمیٹ مہندی کے کون بکرہے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٠٣

 سوال

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ کہ آج کل مارکیٹ میں جو مہندی کے کون بکرہے ہیں (یعنی رےڈیمیٹ مہندی )کیا اسکو لگا کر وضو اور غسل نہی ہوتا ؟ واٹسپ پر ایک مفتی صاحب کی اوڈیو چل رہی ہے کہ اسکو لگاکر وضو اور غسل نہی ہوگا جسکی بناپر نماز وغیرہ بھی نہی ہونگی ۔تحقیقی جوا ب ارسال کریں۔

سائل محمد ارشاد بھوپال


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ہر قسم کی مہندی لگانا جائز ہے البتہ مہندی خریدتے وقت اور لگانے کے بعد ان چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔


مہندی میں کوئی ناپاک چیز ملی ہوئی نہ ہو اگر ناپاک چیز ملی ہوئی ہوگی تو اس کا لگانا درست نہیں ہوگا، اور جب تک تحقیق سے مہندی میں کسی حرام اور نجس شے کے ملنے کا یقین نہ ہو، اس وقت تک بازار سے ملنے والی مہندی کا لگانا ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا۔


مہندی لگانے کے بعد اس کی پرت نہ جم جائے اگر مہندی ایسی ہو کہ جس کے لگانے کے بعد پرت جم جائے، جس سے پانی بالوں تک نہ پہنچ سکے، تو ایسی مہندی لگانے کے بعد وضوء اور غسل صحیح نہیں ہوگا۔


لگائی ہوئی مہندی کو اچھی طرح سے صاف کرلیا جائے اگر ہاتھ پر مہندی لگانے کے بعد اس کو اتارا نہ جائے اور وہ سوکھ جائے تو وہ کھال تک پانی پہنچنے سے مانع ہوگا، لہٰذا اس کے ساتھ وضو درست نہیں ہوگا وضو کرنے سے پہلے اس کا اتارنا ضروری ہے، اسی طرح لگاتے وقت اگر ناخن وغیرہ میں داخل ہوجائے تو اس کو نکالنا بھی ضروری ہے۔


مسؤلہ صورت میں مارکیٹ میں بکنے والی مہندی اوپر بتائے ہوئے شرائط کے مطابق ہو تو اس کو لگا کر وضو اور غسل درست ہوجائے گا اور مہندی لگانے کے بعد جب اس کو اتارلیا جائے اور اس کے بعد اس کا رنگ باقی رہ جائے تو اس کی موجودگی میں نماز کی ادائیگی بھی درست ہے، 


اس سلسلہ میں فتاوی بنوریہ کا ایک سوال مع جواب کے پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔


سوال

 کس قسم کی مہندی لگانا جائز ہے؟ آج کل مارکیٹ میں ایسی مہندی کون آئی ہوئی ہیں جو پپڑی بن کر جسم سے علیحدہ ہوتی ہے تو ایسی مہندی کے ساتھ وضو ہو جاۓگا ؟


جواب

ہر قسم کی مہندی لگانا جائز ہے بشرطیکہ  مہندی میں کوئی ناپاک چیز ملی ہوئی نہ ہو، مہندی لگانے کے بعد وضو اور غسل وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ مہندی لگانے یا رنگنے سے جو رنگ لگا رہ جائے اس سے وضو اور غسل وغیرہ میں خلل نہیں آتا، البتہ اگر جمی ہوئی مہندی خشک ہوجائے اور ہاتھ پر جمی رہ گئی تو اس پر وضو صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ وہ جسم پر پانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں بعض مہندیاں ایسی ہیں کہ لگانے کے بعد جب ہاتھ دھولیتے ہیں تو رنگ کے ساتھ ساتھ ایک باریک جھلی نما تہہ بن جاتی ہے اور بعد میں جب رنگ اترنے لگتا ہے تو ایک باریک تہہ چھلکا بن کر الگ ہوجاتی ہے، ایسی مہندی لگاکر وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا ؛ کیوں کہ وہ جسم تک پانی پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی ہے، بشرطیکہ نفسِ مہندی کو دھو کر زائل کرلیا ہو اور صرف رنگ باقی رہ گیا ہو۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن  جواب نمبر۔ ١٤٣٩٠٩٢٠٠٦٩٤)


فتاوی شامی میں ہے۔

"(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه، به يفتى۔

(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ١/٢٨٨)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

"في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة  أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز۔

وفي الجامع الصغير: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ؟ قال: كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لايستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي، كذا في الذخيرة. وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار، كذا في الزاهدي ناقلاً عن الجامع الأصغر۔

والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل، كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز۔ (الفتاوى الهندية كتاب الطهارة، الباب الاول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء ج ١ص٦) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

درمیان میں بی سی (کمیٹی) چھوڑنے کی صورت میں جمع شدہ رقم واپس نہ کرنا کیسا ہے؟ سوال ٣٠٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

بی سی (کمیٹی) میں تمام شرکاء برابر رقم جمع کرائیں، اور انہیں برابر رقم دی جائے اورتمام شرکاءاخیرتک شریک رہیں (ایسانہ ہوکہ جس کی کمیٹی نکلتی جائےوہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ ہوتاجائے) اور بولی لگا کر فروخت نہ کی جائے تو اس طرح کی بی سی (کمیٹی) ڈالنا جائزہے۔ (بنوری )

ہمارے یہاں اس طرح کی بی سی لگتی ہے لیکن اس کے اندر جو بی سی کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ یہ شرط لگاتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ مثال کے طور پر ایک ہزار روپیہ ادا کرے اور پھر وہ بی سی کا معاملہ نہ کرنا چاہیے اور آگے کی رقم نہ بھرے تو جو بی سی کا ذمہ دار ہوتا ہے اس شخص کو ایک ہزار روپیہ واپس نہیں دیتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ اگر اب وہ معاملہ فسخ کر دے گا تو اس کو ایک ہزار روپیہ واپس نہیں ملے گا تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا یا نہیں ؟

سائل: طاہر ناسک


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ناحق کسی کا مال کھانا ناجائز اور حرام ہے، ناحق مال کھانے والے پر  قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں،  ایسے لوگ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں بلکہ بعض کتبِ فقہ میں منقول ہے کہ  ناحق مال کھانے والے سے ایک دانق (جو درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے) کے  بدلے میں اس کی سات سو مقبول  نمازیں،حق دار کو دے دی جائیں گی، ظلم کوئی معمولی چیز نہیں ہے، ساری عبادتیں اس وقت ناکافی ہیں جب تک ظلم سے برات نہ ہو۔


مسؤلہ صورت میں یہ اس طرح کی شرط لگاکر بی سی کا معاملہ درست نہیں ہے جس کو کمیٹی بھی کہا جاتا ہے، ایک تو اس وجہ سے کہ یہ ناحق کسی کا مال کھانا ہے اور اس کی وعید اوپر آچکی اور دسرا یہ کہ یہ ایک طرح کا مالی جرمانہ ہے، اور مالی تعزیر کی ایک صورت ہے اور مالی تعزیر جمہور فقہاء کے ہاں جائز نہیں ہے، لہذا اگر درمیان میں کوئی اپنی بی سی ختم کریں تو ان کی جمع شدہ ساری قسطیں واپس کرنا ضروری ہے، اور اگر آگے سے یہ شرط لگادی جائے تو معاملہ ہی درست نہیں ہوگا اس لئے کہ اس کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہر شریک کو ہر وقت بطورِ قرض دی ہوئی اپنی رقم واپس لینے کے مطالبہ کا پورا حق ہو، اس پر جبر نہ ہو، اور یہ شرط جبر پر دلالت کرتی ہے۔


فتاوی شامی میں ہے۔

"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».

(قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم ويدخله الجنة برحمته ط ملخصاً۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/١٢٣)


فتاوی شامی میں ہے۔

"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٦/١٠٦ )۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

بدھ، 27 اپریل، 2022

فحش تصویر گندی فلمیں اور ویڈیوز دیکھنے سے انزال ہوجائے تو روزہ کا حکم سوال نمبر ٣٠١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلۂ ذیل میں:ایک نوجوان گندی فلمیں دیکھتا ہے اور اس سے اس کی شہوات میں ہیجان پیدا ہوا ،لیکن آلہ کے انتشار کا کسی کو علم نہ ہو اس لیے وہ آلہ کو دونوں رانوں کے بیچ کر دیتا ہے پھر اسے انزال ہوا لیکن واضح رہے کہ انزال کا سبب برہنہ تصاویر دیکھنا ہے نہ کہ آلہ کو بین الفخذین کرنا تو اس سے اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا یا نہیں..؟؟جواب با حوالہ بالدلیل مطلوب ہے۔

سائل مولوی عبد المتین احمدآبادی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


روزے کی حالت میں جس طرح جِماع حرام ہے اسی طرح جِماع کے متعلق تصوّر کرنا بھی ناجائز ہے۔ جہاں تک روزے کی حالت میں فحش تصویر اور ویڈیوز دیکھنے کی بات ہے، تو یہ شریعت میں بالکل حرام ہے۔ اس قسم کے کبیرہ گناہوں سے روزے کا ثواب پورے طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔


اسی طرح فلم بینی مطلقاً ناجائز ہے، اور رمضان میں ہو تو کئی گناہوں کا مجموعہ اور روزے کا اجر وثواب ختم کرنے کا ذریعہ ہے، اس لیے اگر کسی شخص سے واقعۃً مذکورہ افعال سرزد ہوئے ہو تو اسے سچی توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔


البتہ اگر روزے کی حالت میں فحش تصویر گندی فلمیں اور ویڈیوز دیکھنے اور کسی عورت کو صرف دیکھنے کی وجہ سے یا محض تصوّر کی وجہ سے کسی انسان کو انزال ہوجائے، تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا، البتہ قصداً حالت روزہ میں غیر محرم پر نگاہ کرنے سے روزے کے انوارات اور حقیقی ثمرات ختم ہوجاتے ہیں۔


لیکن اگر انزال ہونے میں اس کا کسی قسم کا بھی دخل ہوگا تو روزہ ٹوٹ جائے گا،


صورت مسئولہ میں اس نے آلہ کے انتشار کا کسی کو علم نہ ہو اس لیے وہ آلہ کو دونوں رانوں کے بیچ کر دیتا ہے یہ دونوں رانوں کے بیچ میں کرنا یہ اس کے فعل کو دخل ہے اور شامی میں لمس کی صورت میں انزال ہوجائے تو بھی اس کو ناقض صوم قرار دیا ہے۔


فتاوی شامی میں ہے۔

( أو لمس ) ولو بحائل لا يمنع الحرارة أو استنما بكفه أو بمباشرة فاحشة ولو بين المرأتين ( فأنزل )

( قوله : أو لمس ) أي لمس آدميا لما مر أنه لو مس فرج بهيمة فأنزل لا يفسد صومه وقدمنا أنه بالاتفاق وفي البحر عن المعراج۔ (فتاوی شامی ٣/٣٧٩)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

وإذا نظر إلى امرأة بشهوة في وجهها أو فرجها كرر النظر أو لا لايفطر إذا أنزل كذا في فتح القدير كذا لايفطر بالفكر إذا إمنى هكذا في السراج الوهاج (فتاوی عالمگیری ج۱ ص۲٠٤)


فتاوی شامی میں ہے۔

(أو احتلم أو أنزل بنظر) ولو إلى فرجها مرارا أو بفكر إن طال (در المختارج ٣/ ص٣٦٨)


البحر الرائق میں ہے۔

او احتلم او انزل بنظر ای لا یفطر۔ (البحر الرائق ۲؍۲۷۲، مجمع الانہر ١/٢٤٤   شامی زکریا ٣/٣٤٧ )


العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

معتکف گرمی کی پریشانی میں ٹھنڈک کے لئے غسل کرسکتا ہے؟ سوال نمبر ٣٠٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت حالت اعتکاف میں بسب شدت گرمی کے غسل کرنا کیسا ہے ؟ جزاک اللہ

اس بارے میں ھمارے یہاں شدید اختلاف ہورہا ہے ۔ آگر قدرے تفصیل سے بیان کرے تو عنداللہ ماجور بنینگے

سائل عطاءاللہ بنگلہ دیش 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


واجب غسل کے علاوہ جمعہ کے غسل کے لئے اسی طرح بدن کی صفائی یا ٹھنڈک کے لئے غسل کے بارے میں باہر نکلنے میں عام کتب فقہ میں تو اس بات کی صراحت ہے کہ غسل واجب کے علاوہ کسی اور غسل کے لئے مسجد سے نہیں نکل سکتا لیکن بعض فقہی عبارات سے جمعہ کے غسل کا جواز معلوم ہوتا ہے 


(يخرج للوضوء والاغتسال فرضا كان أو نفلا، تاتارخانیہ ٣٤٦ /٣)


اسی طرح تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابو یوسف صاحب کے نزدیک کچھ دیر کے لئے مسجد سے باہر رہنے کی صورت میں اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ (٤٤٤/٣)


لہذا ایسا معتكف جو روزانہ غسل کا عادی ہو اور بغیر غسل کے وہ بے چین ہو جائے، نیز موسم گرما میں تو اور پریشانی کا باعث ہے ایسی صورتوں میں ان کے لئے گنجائش ہے کہ غسل تبرید کرلیں۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

دوران عدت عقد نکاح کا حکم سوال نمبر ٢٩٩

 سوال

مفتی آصف صاحب مسئلہ یہ تھا کہ دلہی میں ایک عورت ہے ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اب انہیں گھر چلانے کے لیئے خرچے کی ضرورت ہے لیکن فی الحال وہ عورت عدت میں ہے اب ان بچوں کا گھرچلانے کے لئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے تو اب وہ عورت کیا کریں ؟


مولانا یہ سوال مجھے ایک بندے نے کیا ہے کہ بچوں کے گھر چلانے کے لیئے شوہر کی ضرورت ہے ابھی وہ عورت عدّت میں ہے۔ اور وہ گھر چلانے کے لیئے دوسرے آدمی سے شادی کرنا چاہتی ہے تو کیا دوران عدت میں نکاح کرنا کیسا ہے؟ اگر اِس وقت صحیح نہیں ہے تو گر چلانے کے لیے وہ عورت کیا کرے؟ اور اس بندے کا کہنا ہے کہ جواب قرآن وحدیث سے ثابت ہونا چاہیئے۔

سائل: جاوید جالا ماہی چھاپی،پالنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


متوفی عنہا زوجہا کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔ چاہے عورت کا نکاح ہوتے ہی شوہر کا انتقال ہوجائے اور شوہر نے اس کو دیکھا تک نہ ہو، اور اس خاص مدت تک یہ عورت کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی، یہ مدت شوہر سے وفات کی صورت میں چار مہینہ دس دن مقرر ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم میں وضاحت ہے۔


والذین یتوفون منکم ویذرون أزواجا یتربصن بأنفسھن أربعة أشھر وعشرا فإذا بلغن أجلہن فلا جناح علیکم فیما فعلن في أنفسھن بالمعروف والله بما تعملون خبیر۔ سورۃ البقرة آیت نمبر ٢٣٤

ترجمہ

اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں، اور بیویاں چھوڑ کر جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں گی، پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچ جائیں تو وہ اپنے بارے میں جو کاروائی (مثلا دوسرا نکاح) قاعدے کے مطابق کریں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔


اسی طرح دوسری آیت میں ہے کہ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰى يَبْلُغَ الْكِتَابُ اَجَلَهٗ۔ سورۂ البقرۃ  ۲۳۵

ترجمہ

اور نکاح کا عقد پکا کرنے کا اس وقت تک ارادہ بھی مت کرنا جب تک عدت کی مقررہ مدت اپنی میعاد کو نہ پہنچ جائے۔


اب یہ سمجھئے کہ عدت کی مشروعیت کس مقصد کے خاطر ہے تو فقہاء نے اس کے مختلف مقاصد بیان فرمائے ہیں۔


(١) سب سے بڑا مقصد تو امر تعبدی ہے، یعنی یہ حکم منصوص ہے، اور قرآن میں اللہ نے عدت میں بیٹھنے کا حکم فرمایا ہے اس کو پورا کرنا ہے، چاہے قرآنِ کریم کے منصوص اَحکام کی حکمت و مقصد سمجھ میں نہ آئے تو بھی اسے دل سے تسلیم کرلینا ہی شانِ بندگی ہے۔


یعنی یہ عدت گزارنا اللہ تعالی کا حکم ہے، قرآن کریم کی صریح نصوص سے ثابت ہے جن کا انکار کرنا کفر ہے لہذا عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، حاملہ ہو یا غیر حاملہ، اسے حیض آتا ہو یا وہ ایسی عمر میں ہو جس میں حیض نہ آتا ہو، ان تمام صورتوں میں عدت کے اَحکام اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صراحتاً بیان فرمادیے ہیں، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں، اور ہم پر بندگی لازم ہے، یہ ہے امر تعبدی۔


(٢) استبراءِ رحم یعنی بچہ دانی کے خالی اور فارغ ہونے کا یقین ہونا ہے، کیوں کہ اس میں نسب کی حفاظت  ہے۔


(٣) رشتۂ نکاح کی عظمت و فخامت کا اظہار ہے کہ یہ رشتہ نہ تو انتہائی آسانی سے بن سکتا ہے اور نہ ہی انتہائی آسانی سے ختم ہوسکتا ہے، بلکہ مکمل طور سے ختم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے،


(٤) اس رشتہ کے منقطع ہونے پر ملال وحزن کا اظہار  ہے۔

 

لہذا قرآنی نصوص کی بناء پر جب تک عدت نہ گذرجائے اس وقت تک اس عورت کا نکاح کسی اور سے کرنا جائز نہیں، عدت میں کیا گیا نکاح شرعاً باطل ہوتا ہے، اگر کوئی عورت عدت میں ہو اس سے کوئی نکاح کرے تو نکاح باطل ہوگا وہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔


معتدہ کے لئے اگر گذارے کا انتظام ہو ، تو گھر میں ہی عدت گذارنا لازم ہے ، اگر ملازمت کے لئے گھر سے باہر جائے گی تو گنہگار ہوگی، اور اگر معتدہ غریب ہو اور اس کے پاس گذر بسر کے لیے کوئی انتظام نہ ہو اور کوئی متبادل شکل بھی نہ ہو تو اِس خاص حالت میں بدرجہ مجبوری کسب معاش کی غرض سے دن میں نکلنے کی گنجائش ہے، لیکن رات بہرحال گھر میں آکر گذارے۔


اور اگر وہ کاروبار بھی نہیں کرسکتی اور وہ تہی دست ہے اور اس کے پاس بقدر نصاب زکوۃ یعنی سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) اور چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس کی مالیت کی کوئی چیز ضرورت اصلیہ سے زائد نہ ہو تو اس کو زکوۃ بھی دینا جائز ہے۔


اسی طرح فتاویٰ عالمگیری میں ہے

عدۃ الحرۃ فی وفاۃ أربعۃ اشہر وعشرۃ ایام سواء کانت مدخولا بھا او لا مسلمۃ او کتابیۃ تحت مسلم صغیرۃ او کبیرۃ او آئسۃ و زوجھا حر او عبد حاضت فی ھذہ المدۃ او لم تحض و لم یظھر حملھا ھکذا فتح القدیر ( فتاوی عالمگیری ١/٥٥٥)


حجة الله البالغة میں ہے

"قال الله تعالى: {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} إلى أخر الآيات.

اعلم أن العدة كانت من المشهورات المسلمة في الجاهلية، وكانت مما لايكادون يتركونه، وكان فيها مصالح كثيرة:

منها: معرفة براءة رحمها من مائه، لئلاتختلط الأنساب، فانّ النسب أحد ما يتشاح به، ويطلبه العقلاء، وهو من خواصّ نوع الإنسان، ومما امتاز به من سائر الحيوان، وهي المصلحة المرعية من باب الاستبراء.

ومنها: التنويه بفخامة أمر النكاح حيث لم يكن أمرًا ينتظم إلا بجمع رجال، ولاينفك إلا بانتظار طويل، ولولا ذلك لكان بمنزلة لعب الصبيان ينتظم، ثم يفك في الساعة.

ومنها: أنّ مصالح النكاح لاتتم حتى يوطنا أنفسهما على إدامة هذا العقد ظاهرًا، فإن حدث حادث يوجب فكّ النظام لم يكن بدّ من تحقيق صورة الإدامة في الجملة بأن تتربصّ مدّةً تجد لتربّصها بالًا، وتقاسي لها عناء. (حجة الله البالغة /٢١٩)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

لا يجوز للأجنبي خطبة المعتدة صريحا سواء كانت مطلقة أو متوفى عنها زوجها كذا في البدائع۔ (فتاوی عالمگیری ۵۳۴/۱)


اسی طرح الدر المختار ہے۔

"(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية.

 (قوله: فالأولى إلخ) بيان لحكمة كونها ثلاثا مع أن مشروعية العدة لتعرف براءة الرحم أي خلوه عن الحمل وذلك يحصل بمرة فبين أن حكمة الثانية لحرمة النكاح أي لإظهار حرمته، واعتباره حيث لم ينقطع أثره بحيضة واحدة في الحرة والأمة، وزيد في الحرة ثالثة لفضيلتها." (رد المحتار ٥/١٨٢)


فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے

"لأنّ العدة وجبت للتعرف عن براءة الرحم في الفرقة الطارئة على النكاح ... ثمّ كونها تجب للتعرف لاينفي أن تجب لغيره أيضًا، وقد أفاد المصنف فيما سيأتي أنها أيضًا تجب لقضاء حق النكاح بإظهار الأسف عليه، فقد يجتمعان كما في مواضع وجوب الأقراء، وقد ينفرد الثاني كما في صور الأشهر."فتح القدير للكمال۔ (ابن الهمام ٤/ ٢٧٥-٢٧٦)


فتاوی شامی میں ہے۔

مطلب : الحق أن علی المفتي أن ینظر في خصوص الوقائع قال في الفتح والحقّ أن علی المفتي أن ینظر في خصوص الوقائع، فإن علم في واقعۃ عجز ہٰذہ المختلعۃ عن المعیشۃ إن لم تخرج أفتاہا بالحل ، وإن علم قدرتہا أفتاہا بالحرمۃ الخ۔ ( شامي کتاب الطلاق فصل في الحداد ۵/۲۲۳ زکریا )

ایضاً

ومعتدۃ موت تخرج في الجدیدین وتبیت أکثر اللیل في منزلہا ؛ لأن نفقتہا علیہا ، فتحتاج للخروج حتی لو کان عندہا کفایتہا صارت کالمطلقۃ فلا یحل لہا الخروج۔ (شامي کتاب الطلاق فصل في الحداد ۵/۲۲٤ زکریا )


البحر الرائق میں ہے۔

معتدۃ الموت تخرج یومًا وبعض اللیل ، والحاصل أن مدار الحل کون خروجہا بسبب قیام شغل المعیشۃ ، فیتقدر بقدرہٖ متی انقضت حاجتہا لا یحل لہا بعد ذٰلک صرف الزمان خارج بیتہا۔ ( البحر الرائق باب العدۃ  فصل الاحداد ٤/۱۵۳ کوئٹہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 24 اپریل، 2022

روزہ کی نیت کرنے کے بعد نیت میں تذبذب پیدا ہوجائے تو کیا حکم ہے سوال نمبر ٢٩٨

 سوال

ایک‌ شخص‌ سحری‌ کا وقت‌ ختم‌ ہونے‌ کے‌ بعد‌ بیدار‌ ہوا اس نے‌‌ بغیر‌ کھائے‌ روزہ‌ کی‌ نیت‌ کرلی‌ اسی‌ وقت لیکن نماز‌ فجر‌ سے‌ تین‌ بجے‌ تک‌ وہ‌ اس سوچ‌ میں‌ رہا‌ کہ‌ آج‌ کا‌ روزہ رہنے‌دو‌ پھر سوچتا‌ کہ‌ روزہ‌ رکھلو‌ جب کہ‌ اس‌نے‌ ابتداء میں‌ نیت‌ کی‌ ہے روزہ‌ رکھنے‌کی‌‌ لیکن‌ نماز‌ فجر کے‌ بعد‌سے‌ یہ‌ سوچ‌ بچار‌ میں ہے‌ پھر جب‌‌ عصر‌ کا‌ وقت‌‌ قریب ہوا‌ تو‌ پھر اس‌ نے‌ روزہ‌ کی‌ نیت‌ کر لی اس‌ مسئلہ‌ میں‌ رہنمائی فرماکر مزید‌ مہربانی‌ فرمائیں۔

سائل: محمد طارق مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نیت دِل کے ارادے کا نام ہے اور رمضان کے مہینے میں روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، دل میں ارادہ کر لینا بھی کافی ہے،  بہرحال اس نیت کے استحضار کے لیے اگر زبان سے بھی نیت کر لیں تو بہتر ہے، اور رمضان کے روزے کی نیت نصفِ نہار شرعی سے پہلے پہلے کر سکتے صبح صادق سے لیکر غروب تک جتنا وقت ہوتا ہے اس کے آدھے کو نصف النہار شرعی کہتے ہیں۔ یعنی صبح صادق اور غروب آفتاب کے درمیان جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہوں، ان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، پہلے نصف پر جو وقت ہوتا ہے وہی نصف النہار ہوتا ہے اور روزے میں اسی کا اعتبار ہوگا اور نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے تک نیت کرنا ضروری ہوگا۔


ایک بار نیت کرکے روزہ رکھ لیا تو اب نیت بدلنے کا اختیار نہیں رہا، کیونکہ صبح کی نیت کی وجہ سے روزہ شروع ہوچکا ہے۔ اب نیت بدلنے کے معنی روزہ توڑنے کے ہوں گے، اس صورت میں اگر صبحِ صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضاء و کفارہ دونوں لازم ہوں گے اور اگر اس نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے اور بعد میں صرف نیت میں تذبذب ہے تو اس کا روزہ چونکہ پہلے شروع ہوچکا ہے اس لئے اب اس کا روزہ مکمل شمار ہوگا۔


مسؤلہ صورت میں جب صبح میں روزہ کی نیت کرلی تو ان کا روزہ شروع ہوگیا اب نیت میں تذبذب پیدا ہونے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اگر اس نے کچھ کھا پی لیا ہے تو قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے لیکن اگر کچھ کھایا پیا نہیں ہے تو ان کا روزہ مکمل ہوگیا۔


البحر الرائق میں ہے۔

إعلم أن النیۃ من اللیل کافیۃ في کل صوم بشرط عدم الرجوع عنہا حتی لو نوی لیلا أن یصوم غدا ثم عزم في اللیل علی الفطر لم یصبح صائمًا فلو أفطر لا شیئ علیہ إن لم یکن رمضان ولو مضی علیہ لا یجزیہ لأن تلک النیۃ انتقضت بالرجوع ولو نوی الصائم الفطر لم یفطر حتی یأکل۔ (البحر الرائق، کتاب الصوم، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/٤۵۸، کوئٹہ۲/۲٦۲)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ولو نوی من اللیل ثم رجع عن نیتہ قبل طلوع الفجر صح رجوعہ في الصیامات کلہا کذا في السراج الوہاج (إلی قولہ) إذا نویٰ الصائم الفطر ولم یحدث شیئًا غیر النیۃ فصومہ تام۔ (ہندیۃ، کتاب الصوم، الباب الأول في تعریفہ وتقسیمہ وسببہ ووقتہ وشرطہ، مکتبہ زکریا دیوبند قدیم۱/۱۹۵، جدید ۱/۲۵۸)


فتاوی شامی میں ہے۔

(فيصح اداء صوم رمضان، والنذر المعين، و النفل ، بنية من الليل ........ فلا تصح قبل الغروب ولا عنده ( إلى ضحوة الكبرى لا ) بعدها ولا عندها إعتبارا لأكثراليوم ۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: إلى الضحوة الكبرى) المراد بها نصف النهار الشرعي والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس۔ (شامی ۳۳۸/۳)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

صدقۂ فطر کے مخصوص مسائل سوال نمبر ٢٩٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت جی صدقہ فطر کے کیا احکام ہے شریعت میں واجب ہے یا سنت؟ اور کن لوگوں پر صدقہ فطر واجب ھوگا؟ تفصیل سے رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ 

سائل: سیف اللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


صدقہ فطر کس پر واجب ہے

صدقہ فطر کے وجوب اور عدم وجوب میں تفصیل یہ ہے کہ مسلمان مرد و عورت میں سے چاہے وہ بالغ ہو یا نہ ہو جو بھی صاحب نصاب ہو اور اتنا مال  ہوکہ اس پر زکاۃ واجب ہے، یا اس پر زکوۃ تو واجب نہیں ہے لیکن ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے اور قرض کی مقدار سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے سات تولہ سونا(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) اور ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی قیمت تک پہنچ جائے، چاہے اس پر سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو اس پر صدقہ فطر نکالنا واجب ہے، یہ شخص اپنی اور اپنی نابالغ اولاد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے گا، اور جس شخص کے پاس اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔


دوسروں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا

مرد کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ان کی اجازت سے  ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔


البتہ عورتوں کے لئے یہ حکم نہیں ہے یعنی عورت اگر مالدار ہو تو س سو صرف اپنی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا ہے اولاد یا کسی ور کی طرف سے اس کو صدقہ فطر ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔


صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت

صدقہ فطر عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے) اسی وقت  واجب ہوتا ہے، لہذا جو شخص قبل طلوع فجر مرجائے یا فقیر ہوجائے اسی طرح جو شخص بعد طلوع فجر اسلام لائے یا مال پائے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اور جو لڑکا یا لڑکی فجر طلوع ہونے سے پہلے پیدا ہو یا فجر طلوع ہونے سے پہلے اسلام لائے یا طلوع فجر کے بعد مرجائے یا طلوع فجر کے بعد فقیر ہوجائے اس پر صدقہ فطر واجب ہوگا۔


البتہ صدقہ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے، لیکن عید الفطر کے دن عید کی نماز سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرلینا افضل ہے، یہ بہت زیادہ فضیلت کی بات ہے، عید کی نماز سے پہلے ادا نہیں کیا تو عید کی نماز کے بعد ادا کرنا ہوگا، اور عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے، لیکن پھر بھی ادا کرنا ضروری ہوگا۔ 


صدقہ فطر کس کو دے سکتے ہیں

جس شخص کو زکاۃ دینا جائز ہے اس کو صدقہ فطر دینا بھی جائز ہے، لہذا اپنے اصول (والدین،  دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) اور فروع (اولاد اور ان کی اولاد وغیرہ)کے علاوہ دیگر رشتہ دار ، عزیز و اقارب  جیسے بھائی بہن اور بھتیجے، بھانجے، وغیرہ اگر زکاۃ کے مستحق ہیں یعنی ان کی ملکیت میں  ضرورتِ اصلیہ سے زائد  نصاب زکوۃ کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب زکوۃ کے برابر بنتی ہے تو ان کو صدقہ فطر دینا جائز ہے۔ اور اگر عزیزواقارب میں کوئی مستحق نہ ہو تو  وہ افراد مستحق ہیں جن کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب زکوۃ (ساڑھے سات تولہ سونا(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) اور ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) تک نہ پہنچے۔ ایسے افراد کو زکات اور صدقہ فطر دیاجاسکتا  ہے اور بہت سے لوگوں کا صدقہ فطر ایک ہی مستحق کو دینا جائز ہے اور متفرق مستحقین کو ایک ہی آدمی کا صدقۂ فطر بھی دینا جائز ہے۔


صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے

گیہوں آٹا اور ستو نصف صاع برابر ( ١/۷٦۹) ایک کلوسات سو انہتر گرام ) ایک صاع کھجور ، چھوہارے اور کشمش برابر ( ۳/۵۳۸ ) تین کلو پانچواڑ میں گرام تفصیل کے لئے احسن الفتاوی٤۱٤/٤ سے دیکھیں )


صدقۂ فطر گندم  آٹا اور ستو کے حساب سے پونے دو کلو، اور کھجور، جو  یا کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو ہے، لہذا صدقہ فطر میں بعینہ مذکورہ اجناس میں سے کوئی جنس دی جا رہی ہو تو ایسی  صورت میں مذکورہ بالا وزن کے اعتبار سے دینا شرعاً ضروری ہے، البتہ اگر صدقہ فطر نقدی کی صورت میں ادا کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں ادائیگی کرنے والا جہاں موجود ہو وہاں کی قیمت کا اعتبار ہوگا، وہاں پر قیمت معلوم کرکے صدقۂ فطر ادا کریں۔


فتاوی شامی میں ہے۔

والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال وفي الوصية مكان الموصي وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه۔

و في الرد

قوله مكان المؤدي أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه قوله: وهو الأصح بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه۔ (فتاوی شامی ٣/٣٠٧)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات۔ (فتاوى هنديہ ١/١٩٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة كذا في الخلاصة۔ (فتاوى الهنديہ ١/٢١٣) 


فتاوی شامی میں ہے

(وجاز دفع كل شخص فطرته إلى) مسكين أو (مساكين على) ما عليه الأكثر، وبه جزم في الولوالجية والخانية والبدائع والمحيط، وتبعهم الزيلعي في الظهار من غير ذكر خلاف، وصححه في البرهان، فكان هو (المذهب) كتفريق الزكاة، والأمر في حديث "أغنوهم" للندب؛ فيفيد الأولوية، ولذا قال في الظهيرية: لايكره التأخير أي تحريمًا كما جاز دفع صدقة جماعة إلى مسكين واحد بلا خلاف (فتاوی شامی ٣/٣٢٤)


فتاوی شامی میں ہے۔

والفطر لفظ إسلامي والفطرة مولد، بل قيل لحن، وأمر بها في السنة التي فرض فيها رمضان قبل الزكاة، وكان عليه الصلاة والسلام يخطب قبل الفطر بيومين يأمر بإخراجها.ذكره الشمني (تجب) وحديث فرض رسول الله عليه الصلاة والسلام زكاة الفطر معناه قدر للاجماع على أن منكرها لا يكفر (موسعا في العمر) عند أصحابنا وهو الصحيح.

وقیل مضیفا الفطر عينا) فبعده يكون قضاء، واختاره الكمال في تحريره ورجحه في تنوير البصائر (على كل) حر (مسلم) ولو صغيرا مجنونا، حتى لو لم يخرجها وليهما وجب الاداء بعد البلوغ (ذي نصاب فاضل عن حاجته الاصلية) كدينه وحوائج عياله (وإن لم ينم) كما مر (وبه) أي بهذا النصاب (تحرم الصدقة) كما مر، وتجب الاضحية ونفقة المحارم على الراجح (و) إنما لم يشترط النمو لان (وجوبها بقدرة ممكنة) هي ما يجب بمجرد التمكن من الفعل فلا يشترط بقاؤها لبقاء الوجوب لانها شرط محض (لا) بقدرة (ميسرة) هي ما يجب بعد التمكن بصفة اليسر، فغيرته من العسر إلى اليسر فيشترط بقاؤها لانها شرط في معنى العلة۔ (فتاوی شامی ٣/٢١٠)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 23 اپریل، 2022

مال مستفاد پر زکوۃ کا حکم سوال نمبر ٢٩٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسٸلہ یہ ہیکہ کسی نے درمیانی سال میں کھیت بیچا اور اس کی رقم بھی آٸی تو اس پر زکوة ہوگی یانہیں؟

سائل: محمد ارباز سھارنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


صورت مسئولہ میں اگر وہ شخص پہلے سے صاحب نصاب تھا اور اس پر زکوۃ واجب تھی پھر درمیان سال میں کھیت فروخت کیا ہے اور وہ مال حاصل ہوا ہے تو یہ مال مال مستفاد کی قبیل سے ہیں اور مال مستفاد یعنی درمیان سال میں جو مال کسی بھی اعتبار سے حاصل ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے اس پر زکوۃ فرض تھی اور اس کے بعد اس کو یہ مال حاصل ہوا ہے تو اس کو بھی اسی نصاب سے ملا کر زکوۃ نکالنا لازم ہوگی لہذا مز کی ( زکوۃ دینے والا اپنی زکوۃ دینے کی تاریخ اور مہینہ متعین کر لے اسکے بعد سال کے درمیان جتنا بھی مال حاصل ہوتا رہے سونا چاندی یا نقد رقم سے یا مال تجارت سے ان سب کو ملا کر زکوۃ اپنی متعینہ تاریخ میں نکالے گا۔


اور اگر پہلے سے اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے تو اس مال پر زکوۃ واجب ہونے کے لئے سال کا گزرنا ضروری ہے۔


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

عالمگیری میں ہے ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول مالا من جنسه ضمه الى ماله وزكـاه المستفاد من نمائه اولا وبأى وجه استفاد ضمہ۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٧٥)۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

بدھ، 20 اپریل، 2022

قضائے حاجت کے لئے معتکف کا مسجد سے باہر جانا سوال نمبر ٢٩۵

 سوال

السلام علیکم سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

معتکف حالت اعتکاف میں مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ قضائے حاجت کے لئے جاسکتا ہے مثلاً گھر میں یا بستی میں کسی جگہ اور اس کے کیا اصول ہے؟ 

سائل: مولوی عامر سورتی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مسجد میں کسی قسم کا نظم نہ ہوں یا نظم تو ہو لیکن کسی وجہ سے وہاں قضائے حاجت میں دشواری کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں مسجد کے باہر اپنے گھر یا کسی قریبی جگہ وہ جاسکتا ہے


اس سلسلے میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے احکام اعتکاف میں بہت اچھی وضاحت فرمائی ہے کہ: معتکف قضائے حاجت یعنی پیشاب پاخانے کی ضرورت سے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے جہاں تک پیشاب کا تعلق ہے، اس کے لئے مسجد کے قریب ترین جگہ جہاں پیشاب کرنا ممکن ہو وہاں جانا چاہئے لیکن پاخانے کے لئے جانے میں تفصیل ہے کہ اگر مسجد کے ساتھ کوئی بیت الخلاء بنا ہواہے اور وہاں قضائے حاجت کرنا ممکن ہے تو اسی میں قضائے حاجت کرنا چاہئے کہیں اور جانا درست نہیں لیکن اگر کسی شخص کیلئے اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ قضائے حاجت طبعاً ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ اس غرض کے لئے اپنے گھر چلا جائے خواہ مسجد کے قریب بیت الخلا ء موجود ہو۔


لیکن جس شخص کو یہ مجبوری نہ ہو اور وہ مسجد کا بیت الخلاءچھوڑ کر چلا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جا ئے گا۔


لیکن اگر مسجد میں کوئی بیت الخلاء نہ ہو یا اس میں قضائے حاجت ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے گھر جانا جائزہے خواہ وہ گھر کتنی ہی دور ہو۔


اگر مسجد کے قریب کسی دوست یا عزیز کا گھر موجود ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے اس دوست کے گھر جانا ضروری نہیں بلکہ اس کے باوجود اپنے گھر جانا جائز ہے خواہ اس دوست یا عزیز کے مکان کے مقابلے میں گھردور ہو۔


اگر کسی شخص کے دوگھر ہوں تو اس کو چاہئے کہ قریب والے گھر میں جا کر قضائے حاجت کریں دور والے گھر میں جانے سے بعض علماء کے نزیک اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔


اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو خالی ہونے کے انتظار میں ٹھرنا جائز ہے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی ٹھرنا جائز نہیں اگر ٹھہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔


بیت الخلاء کو جاتے یا وہاں سے آتے وقت راستے میں یا گھر میں کسی کو سلام کرنا سلام کا جواب دینا یا مختصر بات چیت کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس بات چیت کیلئے ٹھرنا نہ پڑے۔


بیت الخلا کیلئے جاتے یا وہاں سے آتے وقت تیز چلنا ضروری نہیں ، آہستہ آہستہ چلنا بھی جائز ہے۔


قضائے حاجت کیلئے جاتے وقت کسی شخص کے ٹھہرانے سے ٹھہرنا نہیں چاہئے بلکہ چلتے چلتے اسے بتا دینا چاہئے کہ میں اعتکاف میں ہوں اس کے لئے ٹھہر‌ نہیں سکتا اگر کسی کے ٹھہرانے‌ سے کچھ دیر ٹھہر گیا تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا یہاں تک کہ اگر راستے میں کسی قرض خواہ نے روک لیا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جاتاہے اگرچہ صاحبین کے نز دیک ایسی مجبوری سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا اور امام سرخسی نے سہولت کی بناء پر صاحبین کے ہی قول کی طرف رجحان ظاہر کیاہے لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ کسی بھی صورت میں راستے میں نہ ٹھہرے۔


جب بیت الخلاء جانے کیلئے نکلا ہو بیڑی سگریٹ پینا جائز ہے بشرطیکہ اس غرض سے ٹھہرنا نہ پڑے جب کوئی شخص قضائے حاجت کیلئے اپنے گھر گیا ہو تو قضاء حاجت کے بعد وہاں وضو کرنا بھی جائز ہے۔


قضائے حاجت میں استنجاء بھی داخل ہے لہذا جن لوگوں کو قطرے کا مرض ہوتا ہے وہ اگر صرف استنجاء کیلئے باہر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں اسی لئے بعض فقہاء نے استنجا ء کو قضائے حا جت کے علاوہ خروج کا مستقل عذر قرار دیا ہے۔ (احکام اعتکاف فضائل و مسائل ص ۵٠ حضرت علامہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم العالیہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا وبرکاتہ

معتکف حالت اعتکاف میں مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ قضائے حاجت کے لئے جاسکتا ہے مثلاً گھر میں یا بستی میں کسی جگہ اور اس کے کیا اصول ہے؟ 

سائل: مولوی عامر سورتی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مسجد میں کسی قسم کا نظم نہ ہوں یا نظم تو ہو لیکن کسی وجہ سے وہاں قضائے حاجت میں دشواری کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں مسجد کے باہر اپنے گھر یا کسی قریبی جگہ وہ جاسکتا ہے


اس سلسلے میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے احکام اعتکاف میں بہت اچھی وضاحت فرمائی ہے کہ: معتکف قضائے حاجت یعنی پیشاب پاخانے کی ضرورت سے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے جہاں تک پیشاب کا تعلق ہے، اس کے لئے مسجد کے قریب ترین جگہ جہاں پیشاب کرنا ممکن ہو وہاں جانا چاہئے لیکن پاخانے کے لئے جانے میں تفصیل ہے کہ اگر مسجد کے ساتھ کوئی بیت الخلاء بنا ہواہے اور وہاں قضائے حاجت کرنا ممکن ہے تو اسی میں قضائے حاجت کرنا چاہئے کہیں اور جانا درست نہیں لیکن اگر کسی شخص کیلئے اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ قضائے حاجت طبعاً ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ اس غرض کے لئے اپنے گھر چلا جائے خواہ مسجد کے قریب بیت الخلا ء موجود ہو۔


لیکن جس شخص کو یہ مجبوری نہ ہو اور وہ مسجد کا بیت الخلاءچھوڑ کر چلا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جا ئے گا۔


لیکن اگر مسجد میں کوئی بیت الخلاء نہ ہو یا اس میں قضائے حاجت ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے گھر جانا جائزہے خواہ وہ گھر کتنی ہی دور ہو۔


اگر مسجد کے قریب کسی دوست یا عزیز کا گھر موجود ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے اس دوست کے گھر جانا ضروری نہیں بلکہ اس کے باوجود اپنے گھر جانا جائز ہے خواہ اس دوست یا عزیز کے مکان کے مقابلے میں گھردور ہو۔


اگر کسی شخص کے دوگھر ہوں تو اس کو چاہئے کہ قریب والے گھر میں جا کر قضائے حاجت کریں دور والے گھر میں جانے سے بعض علماء کے نزیک اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔


اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو خالی ہونے کے انتظار میں ٹھرنا جائز ہے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی ٹھرنا جائز نہیں اگر ٹھہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔


بیت الخلاء کو جاتے یا وہاں سے آتے وقت راستے میں یا گھر میں کسی کو سلام کرنا سلام کا جواب دینا یا مختصر بات چیت کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس بات چیت کیلئے ٹھرنا نہ پڑے۔


بیت الخلا کیلئے جاتے یا وہاں سے آتے وقت تیز چلنا ضروری نہیں ، آہستہ آہستہ چلنا بھی جائز ہے۔


قضائے حاجت کیلئے جاتے وقت کسی شخص کے ٹھہرانے سے ٹھہرنا نہیں چاہئے بلکہ چلتے چلتے اسے بتا دینا چاہئے کہ میں اعتکاف میں ہوں اس کے لئے ٹھہر‌ نہیں سکتا اگر کسی کے ٹھہرانے‌ سے کچھ دیر ٹھہر گیا تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا یہاں تک کہ اگر راستے میں کسی قرض خواہ نے روک لیا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جاتاہے اگرچہ صاحبین کے نز دیک ایسی مجبوری سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا اور امام سرخسی نے سہولت کی بناء پر صاحبین کے ہی قول کی طرف رجحان ظاہر کیاہے لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ کسی بھی صورت میں راستے میں نہ ٹھہرے۔


جب بیت الخلاء جانے کیلئے نکلا ہو بیڑی سگریٹ پینا جائز ہے بشرطیکہ اس غرض سے ٹھہرنا نہ پڑے جب کوئی شخص قضائے حاجت کیلئے اپنے گھر گیا ہو تو قضاء حاجت کے بعد وہاں وضو کرنا بھی جائز ہے۔


قضائے حاجت میں استنجاء بھی داخل ہے لہذا جن لوگوں کو قطرے کا مرض ہوتا ہے وہ اگر صرف استنجاء کیلئے باہر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں اسی لئے بعض فقہاء نے استنجا ء کو قضائے حا جت کے علاوہ خروج کا مستقل عذر قرار دیا ہے۔ (احکام اعتکاف فضائل و مسائل ص ۵٠ حضرت علامہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم العالیہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا