بدھ، 27 اپریل، 2022

دوران عدت عقد نکاح کا حکم سوال نمبر ٢٩٩

 سوال

مفتی آصف صاحب مسئلہ یہ تھا کہ دلہی میں ایک عورت ہے ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اب انہیں گھر چلانے کے لیئے خرچے کی ضرورت ہے لیکن فی الحال وہ عورت عدت میں ہے اب ان بچوں کا گھرچلانے کے لئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے تو اب وہ عورت کیا کریں ؟


مولانا یہ سوال مجھے ایک بندے نے کیا ہے کہ بچوں کے گھر چلانے کے لیئے شوہر کی ضرورت ہے ابھی وہ عورت عدّت میں ہے۔ اور وہ گھر چلانے کے لیئے دوسرے آدمی سے شادی کرنا چاہتی ہے تو کیا دوران عدت میں نکاح کرنا کیسا ہے؟ اگر اِس وقت صحیح نہیں ہے تو گر چلانے کے لیے وہ عورت کیا کرے؟ اور اس بندے کا کہنا ہے کہ جواب قرآن وحدیث سے ثابت ہونا چاہیئے۔

سائل: جاوید جالا ماہی چھاپی،پالنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


متوفی عنہا زوجہا کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔ چاہے عورت کا نکاح ہوتے ہی شوہر کا انتقال ہوجائے اور شوہر نے اس کو دیکھا تک نہ ہو، اور اس خاص مدت تک یہ عورت کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی، یہ مدت شوہر سے وفات کی صورت میں چار مہینہ دس دن مقرر ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم میں وضاحت ہے۔


والذین یتوفون منکم ویذرون أزواجا یتربصن بأنفسھن أربعة أشھر وعشرا فإذا بلغن أجلہن فلا جناح علیکم فیما فعلن في أنفسھن بالمعروف والله بما تعملون خبیر۔ سورۃ البقرة آیت نمبر ٢٣٤

ترجمہ

اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں، اور بیویاں چھوڑ کر جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں گی، پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچ جائیں تو وہ اپنے بارے میں جو کاروائی (مثلا دوسرا نکاح) قاعدے کے مطابق کریں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔


اسی طرح دوسری آیت میں ہے کہ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰى يَبْلُغَ الْكِتَابُ اَجَلَهٗ۔ سورۂ البقرۃ  ۲۳۵

ترجمہ

اور نکاح کا عقد پکا کرنے کا اس وقت تک ارادہ بھی مت کرنا جب تک عدت کی مقررہ مدت اپنی میعاد کو نہ پہنچ جائے۔


اب یہ سمجھئے کہ عدت کی مشروعیت کس مقصد کے خاطر ہے تو فقہاء نے اس کے مختلف مقاصد بیان فرمائے ہیں۔


(١) سب سے بڑا مقصد تو امر تعبدی ہے، یعنی یہ حکم منصوص ہے، اور قرآن میں اللہ نے عدت میں بیٹھنے کا حکم فرمایا ہے اس کو پورا کرنا ہے، چاہے قرآنِ کریم کے منصوص اَحکام کی حکمت و مقصد سمجھ میں نہ آئے تو بھی اسے دل سے تسلیم کرلینا ہی شانِ بندگی ہے۔


یعنی یہ عدت گزارنا اللہ تعالی کا حکم ہے، قرآن کریم کی صریح نصوص سے ثابت ہے جن کا انکار کرنا کفر ہے لہذا عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، حاملہ ہو یا غیر حاملہ، اسے حیض آتا ہو یا وہ ایسی عمر میں ہو جس میں حیض نہ آتا ہو، ان تمام صورتوں میں عدت کے اَحکام اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صراحتاً بیان فرمادیے ہیں، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں، اور ہم پر بندگی لازم ہے، یہ ہے امر تعبدی۔


(٢) استبراءِ رحم یعنی بچہ دانی کے خالی اور فارغ ہونے کا یقین ہونا ہے، کیوں کہ اس میں نسب کی حفاظت  ہے۔


(٣) رشتۂ نکاح کی عظمت و فخامت کا اظہار ہے کہ یہ رشتہ نہ تو انتہائی آسانی سے بن سکتا ہے اور نہ ہی انتہائی آسانی سے ختم ہوسکتا ہے، بلکہ مکمل طور سے ختم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے،


(٤) اس رشتہ کے منقطع ہونے پر ملال وحزن کا اظہار  ہے۔

 

لہذا قرآنی نصوص کی بناء پر جب تک عدت نہ گذرجائے اس وقت تک اس عورت کا نکاح کسی اور سے کرنا جائز نہیں، عدت میں کیا گیا نکاح شرعاً باطل ہوتا ہے، اگر کوئی عورت عدت میں ہو اس سے کوئی نکاح کرے تو نکاح باطل ہوگا وہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔


معتدہ کے لئے اگر گذارے کا انتظام ہو ، تو گھر میں ہی عدت گذارنا لازم ہے ، اگر ملازمت کے لئے گھر سے باہر جائے گی تو گنہگار ہوگی، اور اگر معتدہ غریب ہو اور اس کے پاس گذر بسر کے لیے کوئی انتظام نہ ہو اور کوئی متبادل شکل بھی نہ ہو تو اِس خاص حالت میں بدرجہ مجبوری کسب معاش کی غرض سے دن میں نکلنے کی گنجائش ہے، لیکن رات بہرحال گھر میں آکر گذارے۔


اور اگر وہ کاروبار بھی نہیں کرسکتی اور وہ تہی دست ہے اور اس کے پاس بقدر نصاب زکوۃ یعنی سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) اور چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس کی مالیت کی کوئی چیز ضرورت اصلیہ سے زائد نہ ہو تو اس کو زکوۃ بھی دینا جائز ہے۔


اسی طرح فتاویٰ عالمگیری میں ہے

عدۃ الحرۃ فی وفاۃ أربعۃ اشہر وعشرۃ ایام سواء کانت مدخولا بھا او لا مسلمۃ او کتابیۃ تحت مسلم صغیرۃ او کبیرۃ او آئسۃ و زوجھا حر او عبد حاضت فی ھذہ المدۃ او لم تحض و لم یظھر حملھا ھکذا فتح القدیر ( فتاوی عالمگیری ١/٥٥٥)


حجة الله البالغة میں ہے

"قال الله تعالى: {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} إلى أخر الآيات.

اعلم أن العدة كانت من المشهورات المسلمة في الجاهلية، وكانت مما لايكادون يتركونه، وكان فيها مصالح كثيرة:

منها: معرفة براءة رحمها من مائه، لئلاتختلط الأنساب، فانّ النسب أحد ما يتشاح به، ويطلبه العقلاء، وهو من خواصّ نوع الإنسان، ومما امتاز به من سائر الحيوان، وهي المصلحة المرعية من باب الاستبراء.

ومنها: التنويه بفخامة أمر النكاح حيث لم يكن أمرًا ينتظم إلا بجمع رجال، ولاينفك إلا بانتظار طويل، ولولا ذلك لكان بمنزلة لعب الصبيان ينتظم، ثم يفك في الساعة.

ومنها: أنّ مصالح النكاح لاتتم حتى يوطنا أنفسهما على إدامة هذا العقد ظاهرًا، فإن حدث حادث يوجب فكّ النظام لم يكن بدّ من تحقيق صورة الإدامة في الجملة بأن تتربصّ مدّةً تجد لتربّصها بالًا، وتقاسي لها عناء. (حجة الله البالغة /٢١٩)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

لا يجوز للأجنبي خطبة المعتدة صريحا سواء كانت مطلقة أو متوفى عنها زوجها كذا في البدائع۔ (فتاوی عالمگیری ۵۳۴/۱)


اسی طرح الدر المختار ہے۔

"(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية.

 (قوله: فالأولى إلخ) بيان لحكمة كونها ثلاثا مع أن مشروعية العدة لتعرف براءة الرحم أي خلوه عن الحمل وذلك يحصل بمرة فبين أن حكمة الثانية لحرمة النكاح أي لإظهار حرمته، واعتباره حيث لم ينقطع أثره بحيضة واحدة في الحرة والأمة، وزيد في الحرة ثالثة لفضيلتها." (رد المحتار ٥/١٨٢)


فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے

"لأنّ العدة وجبت للتعرف عن براءة الرحم في الفرقة الطارئة على النكاح ... ثمّ كونها تجب للتعرف لاينفي أن تجب لغيره أيضًا، وقد أفاد المصنف فيما سيأتي أنها أيضًا تجب لقضاء حق النكاح بإظهار الأسف عليه، فقد يجتمعان كما في مواضع وجوب الأقراء، وقد ينفرد الثاني كما في صور الأشهر."فتح القدير للكمال۔ (ابن الهمام ٤/ ٢٧٥-٢٧٦)


فتاوی شامی میں ہے۔

مطلب : الحق أن علی المفتي أن ینظر في خصوص الوقائع قال في الفتح والحقّ أن علی المفتي أن ینظر في خصوص الوقائع، فإن علم في واقعۃ عجز ہٰذہ المختلعۃ عن المعیشۃ إن لم تخرج أفتاہا بالحل ، وإن علم قدرتہا أفتاہا بالحرمۃ الخ۔ ( شامي کتاب الطلاق فصل في الحداد ۵/۲۲۳ زکریا )

ایضاً

ومعتدۃ موت تخرج في الجدیدین وتبیت أکثر اللیل في منزلہا ؛ لأن نفقتہا علیہا ، فتحتاج للخروج حتی لو کان عندہا کفایتہا صارت کالمطلقۃ فلا یحل لہا الخروج۔ (شامي کتاب الطلاق فصل في الحداد ۵/۲۲٤ زکریا )


البحر الرائق میں ہے۔

معتدۃ الموت تخرج یومًا وبعض اللیل ، والحاصل أن مدار الحل کون خروجہا بسبب قیام شغل المعیشۃ ، فیتقدر بقدرہٖ متی انقضت حاجتہا لا یحل لہا بعد ذٰلک صرف الزمان خارج بیتہا۔ ( البحر الرائق باب العدۃ  فصل الاحداد ٤/۱۵۳ کوئٹہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: